1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کی آمد یورپ پر ’اسلام پسندوں کی یلغار‘: وِلڈرز

امتیاز احمد26 ستمبر 2015

یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان تارکین وطن کے بحران سے ہر ممکن فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ وہ مہاجرین کی آمد کو یورپ پر ’اسلام پسندوں کی یلغار‘ قرار دیتے ہیں اور یہ نعرہ انتخابی کامیابی کے لیے استعمال کریں گے۔

https://p.dw.com/p/1Ge4z
Deutschland Flüchtlinge in Berlin
تصویر: picture alliance/dpa/B. von Jutrczenka

فرانس کے مشہور تجزیہ کاروں میں شمار ہونے اور یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہر ژاں اِیو کامیو نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ان کی بنیادی سوچ یہ ہے کہ یورپ آنے والے افراد نہ تو تارکین وطن ہیں اور نہ ہی مہاجرین، بلکہ یہ یلغار کرنے والے افراد ہیں۔‘‘

فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’نیشنل فرنٹ‘ (ایف این) کی خاتون لیڈر مارین لےپین اس حوالے سے دعویٰ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’غیرقانونی تارکین وطن کے مطالبات لا محدود ہیں اور وہ متکبر بھی ہیں۔ ان میں سے تین چوتھائی افراد مہاجرین ہیں ہی نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو مالی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ایف این کی اس سربراہ کا کہنا ہے کہ یورپی سرحدوں پر پہنچنے والے ان افراد کو ’کچھ دیر آرام کرنے دیں، وہاں ان کو کھانا فراہم کریں اور اس کے بعد انہیں وہاں سے ہی واپس بھیج دیں، جہاں سے وہ آئے ہیں‘۔

اسی طرح سویڈش ڈیموکریٹس کے متعدد مشہور رہنماؤں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے شامی بچے ایلان کا والد سویڈن میں اپنے دانتوں کا مفت علاج کرانے کے لیے آنا چاہتا تھا۔ سویڈن کی اس جماعت نے گزشتہ انتخابات میں تیرہ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

ہالینڈ کے ایک مشہور اور اسلام کی مخالفت کی وجہ سے جانے جانے والے سیاستدان گیرٹ وِلڈرز نے تارکین وطن کی آمد کو ’’اسلام پسندوں کی یلغار‘‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس ڈچ سیاستدان کا کہنا ہے کہ ان تارکین وطن کی آمد سے یورپ کی ’ثقافت، سلامتی اور شناخت‘ خطرے میں ہیں۔

فرانسیسی تجزیہ کار ژاں اِیو کامیو کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ایسی یورپی جماعتیں اور ان کے عہدیدار ایک عرصے سے ایسی باتیں کرتے آ رہے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں ان کے بیانات کا اثر زیادہ ہو گا۔ ان کے مطابق یہ سیاستدان تارکین وطن کو داعش کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔

فرانسیسی تاریخ دان نیکولا لے بورگ کا کہنا ہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو یورپ میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، خاص کر نائن الیون حملوں کے بعد سے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ لوگ تارکین وطن کے بحران سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔‘‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ عوامی جائزوں سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ایسی انتہائی دائیں بازو کی یورپی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا اثر ملکی یا یورپی سطح پر ہونے والے آئندہ انتخابات کے نتائج پر بھی پڑے گا۔