1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخایشیا

تاریخ لکھنے کا آغاز کب ہوا اور اس کی بنیادیں کیسے بنتی ہیں؟

20 اگست 2021

قوموں اور افراد کو اپنی شناخت کے لیے تاریخ کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض اقوام کو ماضی کی تلاش میں تاریخی دستاویزات، آثار قدیمہ، فوک، ادب،زبانیں اور روایات تاریخ کو تشکیل دینے میں مدد دیتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3zCld
Mubarak Ali
تصویر: privat

لیکن جب تاریخ کی تشکیل کا یہ مواد موجود نہ ہو تو قومیں اپنے تخیل کی مدد سے دیو مالائی حالات اور حادثات سے اپنی تاریخ بنا لیتی ہیں۔ خاص طور سے حکمران خاندانوں اور امراء کے لیے تاریخ ضروری ہوتی ہے کیونکہ اس کی مدد سے وہ اپنے سماجی رتبے اور مراعات کو قائم رکھنے کا جواز دیتے ہیں۔ اگر کوئی قوم زوال پذیر ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتیں کھو دیتی ہے تو اس صورت میں وہ ماضی میں کسی ہیرو کو تلاش کر کے اسے تقدس کا درجہ دے کر اس کے نام سے اپنے مفادات پورے کرتے ہیں۔ جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے نہ تو تاریخ ان کو اپنے دائرے میں لاتی ہے اور نہ ہی ان میں اپنی تاریخی شناخت کا احساس ہوتا ہے کیونکہ ماضی میں ان کے لئے کوئی فائدہ مند شے نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ماضی ان کے حال کو بہتر بناتا ہے۔

برطانوی تاریخ دان ہربرٹ بٹرفیلڈ نے اپنی کتاب ’اوریجن آف ہسٹری‘ میں مختلف اقوام کے کلچر میں تاریخ کی بنیادوں کو تلاش کیا ہے۔ مثلاً اس کی دلیل کے مطابق یہودیوں میں سب سے پہلے تاریخی شعور کا احساس پیدا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودی قبائل بکھرے ہوئے تھے۔ ان میں کوئی اتحاد نہیں تھا، اس لئے جب انہوں نے یروشلم میں اپنا سیناگوگ تعمیر کیا اور ریاست کی بنیاد ڈالی تو ماحول میں انہیں یہ احساس ہوا کہ اپنی تاریخ کی تشکیل کی جائے تاکہ وہ تاریخی شعور کے ساتھ اپنے وجود کو باقی رکھ سکیں۔

یہودیوں میں تاریخ لکھنے کا آغاز

جب 597ء ق م میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کی عبادت گاہ کو مسمار کیا اور یہودی رہنماؤں کو قید کر کے بابل لے آیا تو ان کی تاریخ ایک جگہ ٹھہر گئی۔ بعدازاں ایرانی شہنشاہ نے بابل کی فتح کے بعد یہودیوں کو قید سے چھڑایا اور یروشلم کا سیناگوگ دوبارہ سے تعمیر کرایا۔ اس کے بعد یہودیوں نے عہد نامہ عتیق میں اپنی تاریخ لکھنی شروع کی۔ لیکن سیاسی حالات نے یہودی ریاست کو باقی نہیں رہنے دیا اور اس پر رومیوں نے حملہ کر کے ان کی عبادت گاہ کو ایک بار پھر مسمار کر دیا اور انہیں یروشلم سے جلاوطن کر دیا گیا۔ ان سیاسی حادثات کا یہودی قوم کے ذہن پر گہرا اثر ہوا۔ اپنے اس المیے کو انہوں نے خدا کی ناراضی قرار دیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی تاریخ تو لکھی مگر چونکہ ماضی نے انہیں اذیت اور عذاب کے سوا کچھ نہ دیا، اس لیے تاریخ سے ان کی دلچسپی ختم ہو گئی۔

خدا کی خوشنودی کے لئے انہوں نے جس پالیسی پر عمل کرنا شروع کیا وہ یہ تھی کہ اپنے مذہبی عقیدے پر سختی سے قائم رہا جائے اور دوسری قوموں سے اپنے میل ملاپ کو ختم کر دیا جائے۔ اس لئے جب یہودی خود کو خدا کی پسندیدہ قوم کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ تھا کہ دوسری قوموں کے کلچر یا رواج سے خود کو آلودہ نہ کیا جائے۔ اس ذہنیت کی وجہ سے یہودیوں کی تاریخ ایک جگہ ٹھہر کر رہ گئی۔

یونانی تاریخ کا آغاز

اس کے بعد بٹرفیلڈ نے یونان میں تاریخ نویسی پر روشنی ڈالی ہے۔ لیکن تاریخ کا یہ ارتقاء یونان کی شہری ریاستوں کے بجائے ایونیا سے ہوا، جو ایک یونانی کالونی تھا مگر یہ ایران کے سیاسی تسلط میں تھا۔ اس کے سائنس دانوں نے دنیا کی پیدائش کے بارے میں یہ دلائل فراہم کیے کہ یہ پانی، آگ، ہوا اور مٹی سے بنی ہے۔ اسی کے ایک فلسفی ہیراکلیٹس نے کہا تھا کہ آدمی ایک ہی دریا میں دوبارہ پیر نہیں رکھ سکتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی شے آفاقی یا ابدی نہیں بلکہ متحرک ہے اور برابر حرکت میں ہے اور تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس نظریے نے تاریخ نویسی پر گہرا اثر ڈالا۔

یونان کی ابتدائی تاریخ شاعری میں ہے۔ جب ہیرو ڈوٹس نے اپنی تاریخ لکھی تو وہ ایران اور مصر گیا، وہاں کے حالات کا مشاہدہ کیا اور پھر خاص طور سے ایران اور یونان کے درمیان جنگ کو تفصیل سے لکھا۔ ایتھنز میں اس وقت یہ دستور تھا کہ مورخ اپنی تاریخ کے اقتباسات عوامی جلسوں میں پڑھ کر سناتا تھا۔ اس سے ایتھنز کے لوگوں کی تاریخ سے دلچسپی ظاہر ہوتی تھی۔ دوسرا مورخ تھیوسو ڈیزیز تھا، جس نے پیلی پونیشین جنگ پر کتاب لکھی ہے۔ اس کی تاریخ سے ایک بات ضرور واضح ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ یونان کی لوگ جنگ میں مرنے والے فوجیوں کی بے انتہا عزت کرتے تھے۔

ایتھنز کے معاشرے میں تاریخی شعور کا احساس ہمیں ان کے ڈراموں میں بھی ملتا ہے اور یہی وہ احساس تھا کہ جس کی بنیاد انہوں نے ایران سے جنگ لڑ کر انہیں شکستیں دیں۔

چین میں تاریخ کا آغاز

بٹرفیلڈ نے تاریخ کی تشکیل کے سلسلے میں چین کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ دوسری قوموں کے مقابلے میں اگرچہ چینی تنہائی میں رہے اور اسی تنہائی میں انہوں نے اپنا کلچر اور روایات پیدا کیں لیکن ابتدا ہی سے ان کے معاشرے میں تاریخی شعور کا گہرا احساس تھا۔ مثلاً ان کی پہلی تاریخی شیا سلطنت کے عہد کی ہڈیوں پر لکھی تحریریں ملی ہیں، جو مستقبل کے حالات کو جاننے کے لئے تھیں اس کے بعد شانگ خاندان اقتدار میں آیا تو اس نے رسم الخط کو بہتر بنایا، لیکن ’’جو‘‘ خاندان کے زمانے کی تاریخی دستاویزات یہی ہیں۔ یہ عہد فلسفیوں کا زمانہ کہلاتا تھا۔ فلسفی حکمرانوں کے دربار میں جاکر ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ مورخ بھی بادشاہوں کو تبدیل کرتے تھے۔

221 ق م میں چن خاندان برسراقتدار آیا تو اس نے پورے چین کو متحد کر کے چھوٹی ریاستوں کا خاتمہ کیا۔ ساتھ ہی اس نے یہ حکم صادر کیا کہ شکست خوردہ ریاستوں کی ساری کتابیں جلا دی جائیں، خاص طور سے تاریخ کی کتابیں تا کہ لوگوں کی وفاداری چن خاندان سے رہے کیونکہ اس وقت کتابیں بانس کے تیلوں کی شیٹ پر لکھی جاتی تھیں۔ اس لئے ان کے ذخیرے کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ کتابوں کو جلائے جانے کی وجہ سے چین کی تاریخ گم ہو گئی۔

صورتحال اس وقت تبدیل ہوئی، جب چین مین ووہان خاندان کی حکومت آئی۔ تو اس عہد میں رسم الخط بھی بہتر ہوا اور لکھنے کے لئے نئے برش بھی ایجاد ہوئے اور یہ لکھائی اب سکہ پر ہونے لگی۔ چین کی گمشدہ تاریخ کو دریافت کرنے کے لئے مورخوں کی جستجو شروع ہوئی، جنہوں نے زبانی تاریخ کے ذریعے یا کچھ بچے ہوئے مخطوطات کے ذریعے چین کی رسومات، روایات اور تہواروں پر لکھنا شروع کیا۔ ووہان خاندان کا مشہور تاریخ  دان سما چین تھا، جس نے پورے ملک کا دورہ کرتے ہوئے تاریخی مواد جمع کر کے چالیس چالیس جلدوں میں تاریخ لکھی۔

چین کی تاریخ نویسی کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ اس کے مورخوں نے سب سے پہلے تاریخی دستاویزات اور مخطوطات کا تنقیدی جائزہ لیا اور اس پر بحث کی کہ اس کی روشنی میں واقعات کس حد تک درست ہیں اور کس حد تک ان میں مبالغہ آرائی ہے۔ چین کے حکمرانوں نے بھی تاریخ میں دلچسپی لی اور اپنے دربار میں مورخوں کو اعلیٰ عہدے دیے کیونکہ ان کی خواہش تھی کہ ان کا دور حکومت اور ان کے کارنامے تاریخ کے ذریعے باقی رہیں۔ اس لحاظ سے چین میں تاریخ نویسی کی مضبوط بنیادیں رکھی گئیں، جن نے ان کی تہذیب اور کلچر کو محفوظ رکھا۔

تاریخ پر مسیحی مذہب کے اثرات

 بٹر فیلڈ نے تاریخ نویسی پر مسیحی مذہب کے اثرات کا تجزیہ کیا ہے۔ یہودیت کے برخلاف مسیحیت نے تاریخ کے عمل کو منفی انداز میں دیکھا ہے۔ یہودیت نے تاریخ کا سہارا لے کر اپنی شناخت کو مستحکم کیا لیکن مسیحی عقیدے کے تحت اس مادی دنیا میں تاریخ کے عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ آخرت مستقل ٹھکانہ ہو گا۔ لہٰذا تاریخ کو بنانے میں اپنی توانائی کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، لیکن چونکہ اس دنیا میں سیاسی اور سماجی تبدیلیاں آتی رہیں۔ فطری آفات نے بھی انسان کی زندگی پر اثرات ڈالے اس لئے ان واقعات اور حادثات کو سمجھنا بھی ضروری تھا۔ سینٹ آگسٹین نے معاشرے کے تضادات نیکی اور بدی کے درمیان تصادم اور تہذیبوں کا عروج و زوال ان کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو کچھ اس دنیا میں ہو رہا ہے وہ سب خدا کے منصوبوں کے تحت ہے، اس لئے چاہے وہ رومی سلطنت ہو یا بدعنوانی کی اجارہ داری ہو یہ سب کچھ خدا کے منصوبوں کے تحت ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت تاریخ کی تشکیل میں انسان کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔

یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں دنیا کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ اس کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی، لہٰذا ابتدا اور انتہا کے درمیان تاریخ کا جو سفر ہے وہ انسان کے فہم سے بالاتر ہے۔ عہد وسطیٰ میں جب معاشرے پر چرچ کا تسلط ہوا تو انسان کی پوری زندگی اس کے دائرے میں آکر پابندیوں کا شکار ہو گئی۔ فطری آفات ہوں، جنگیں ہوں یا قتل و غارت گری ہو۔ ان سب کو عذاب الٰہی قرار دے کر ان کی وجوہات کو تلاش نہیں کیا گیا اور فرد نے تمام اذیتوں کو اس لئے برداشت کیا کہ وہ خدا کی جانب سے ہیں اور اس کے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔

چرچ کے اس عقیدے کی وجہ سے معاشرے میں تحقیق اور جستجو کے جذبات ختم ہو گئے۔ اس کی سوچ بھی ٹھہر کر رہ گئی۔ اس میں اس وقت تبدیلی آئی، جب اٹلی میں نشاۃ ثانیہ کے سیکولرز نے اس نقطہ نظر کو تبدیل کیا اور تاریخ کو مذہب کی پابندیوں سے نکالا۔ اس تبدیلی میں دو اہم چیزیں اہم تھیں۔ ایک یہ کہ یورپی سیکولرز نے پرانے اور قدیم مخطوطات اور دستاویزات کو جو مذہبی خانقاہوں کے کتب خانوں میں تھیں، انہیں دریافت کیا۔ ان میں یونان اور رومی دور کے فلسفے اور تاریخ کی دستاویزات تھیں، جو خانقاہ کے راہبوں نے چمڑے کے صفحات پر لکھ کو محفوظ کر رکھی تھیں۔ ان مخطوطات کو پڑھنے کے لئے اور سمجھنے کے لئے ضروری تھا کہ علم لسانیات پر عبور حاصل کیا جائے۔ اس علم کے ماہرین یہ اندازہ لگا لیتے تھے کہ دستاویز کی تحریر کس عہد کی ہے اور اگر بعد میں اضافہ ہوا ہے تو وہ اس میں استعمال ہونے والے الفاظ کی مدد سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ اضافہ کس عہد میں ہوا۔

بٹرفیلڈ نے اسلامی تاریخ پر زیادہ توجہ نہیں دی  لیکن جب  عباسی دور حکومت میں فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور عربوں کے تعلقات دوسری اقوام اور مذاہب سے ہوئے تو ان کی تاریخ نویسی بھی، جو اب تک مذہبی واقعات کا مجموعہ تھی،  اس میں وسعت آئی۔ خاص طور سے تبری نے الرسول آل اُمم کی کتاب لکھی، جو اپنے وقت کی یونیورسل تاریخ ہے۔ ابن خلدون کا مقدمہ فلسفہ تاریخ پر ایک اہم دستاویز ہے، جس میں اس نے شاہی خاندانوں کے عروج و زوال کا ذکر کیا ہے لیکن رشیدالدین کی کتاب ’’جامع التواریخ‘‘ بھی اہم ہے۔

اب تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے؟

نیوٹن کے سائنسی انقلاب اور ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے تاریخ نویسی کو بدل ڈالا۔ اب چاہے وہ قوموں اور تہذیبوں کا عروج و زوال ہو، فطری آفات اور وبائیں ہوں ان سب کا تجزیہ عقلی بنیادوں پر ہونے لگا۔  اس مرحلے پر تاریخ معاشروں میں رہنمائی کا باعث بن گئی اور افراد پر یہ بات بھی روشن ہوئی کہ تاریخ کی مدد سے مسائل کو سمجھا بھی جاسکتا ہے اور ان کو حل بھی کیا جاسکتا ہے۔

موجودہ دور میں تاریخ کا دائرہ مزید وسیع ہوا ہے۔ اب اس میں سیاست، معیشت، تہذیبی اور ثقافتی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات کی تاریخ بھی شامل ہو گئی ہے۔ موجودہ دور میں یہ کوشش بھی ہو رہی ہے کہ تاریخ کے علم کو یا تو گھٹا دیا جائے یا اسے ناکارہ بنا دیا جائے۔ اس سلسلے میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی اس تیزی سے ترقی کر رہی ہیں کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ جب انسان کی ضرورت ہی نہیں ہو گی اور ٹیکنالوجی اس کی جگہ لے لے گی لیکن اب تک جتنی ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی ہے، وہ انسان کی ذہنیت کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انسانی ذہن اپنی تخلیق کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس میں اس کا تاریخی شعور مدد کرے گا۔