1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک سیاستدانوں کا جلسوں سے خطاب: پابندی ممکن، جرمن دھمکی

مقبول ملک
18 مارچ 2017

کئی یورپی ممالک کے ترکی کے ساتھ تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناطر میں جرمنی نے دھمکی دے دی ہے کہ وہ ترک سیاستدانوں کی اپنے ہاں ترک نژاد باشندوں کے عوامی اجتماعات میں شرکت پر پابندی بھی لگا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZTPl
Türken in den Niederlanden
تصویر: picture-alliance/ANP

جرمن دارالحکومت برلن سے ہفتہ اٹھارہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ترکی میں اگلے مہینے جو آئینی ریفرنڈم ہونے والا ہے، اس کے لیے یورپی ممالک میں آباد کئی ملین ترک نژاد باشندوں کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر انقرہ حکومت کی کوشش تھی اور اب تک ہے کہ آسٹریا، جرمنی اور ہالینڈ جیسے ممالک میں، جہاں ترک نژاد تارکین وطن کی بڑی تعداد آباد ہے، ترک حکومتی وزراء ایسے سیاسی اجتماعات سے خطاب کریں۔

مغرب نے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا، ایردوآن

ہالینڈ سے ترک وزیر کی بےدخلی کے بعد مظاہرے، کشیدگی میں اضافہ

ترکی کا ریفرنڈم، آسٹریا اور جرمنی میں سیاسی مہم میں مشکلات

لیکن چند ممالک میں سکیورٹی وجوہات کی بناء پر اس حوالے سے مقامی حکام کی طرف سے اجازت ملنے سے انکار کے بعد انقرہ اور کئی یورپی دارالحکومتوں کے مابین تعلقات کافی زیادہ کشیدہ ہو چکے ہیں۔

اس سلسلے میں وفاقی جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے اب کہا ہے کہ جرمنی نے یہ واضح کرنے میں کبھی بھی ہچکچکاہٹ سے کام نہیں لیا کہ اگر انقرہ حکومت نے جرمنی میں جرمن قوانین کا احترام نہ کیا تو برلن حکومت ملک میں ترک سیاسی رہنماؤں کی عوامی اجتماعات میں شرکت پر پابندی بھی لگا سکتی ہے۔

زیگمار گابریئل نے جرمن ہفت روزہ جریدے ڈیئر اشپیگل میں آج ہفتے کے روز شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’وہ جو ایسا کرتے ہوئے لکیر عبور کر جاتے ہیں، یہ نہ سمجھیں کہ ہم انہیں اپنے ہاں اپنے سیاسی نظریات کی ترویج کی اجازت دے دیں گے۔‘‘

SPD Sigmar Gabriel
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے کہا ہے کہ جرمنی اپنے ہاں ترک سیاستدانوں کی عوامی اجتماعات میں شرکت پر پابندی بھی لگا سکتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten

اس حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ چند ترک وزراء کو ابھی حال ہی میں آسٹریا اور جرمنی میں ترک نژاد باشندوں کے ایسے سیاسی اجتماعات سے خطاب کی اجازت نہیں ملی تھی اور ہالینڈ نے تو ترک وزیر ‌خارجہ کو اس مقصد کے لیے اپنے ہاں آنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا جبکہ خاندانی اور سماجی امور کی ترک خاتون وزیر، جو ایسے ہی ایک جلسے میں شرکت کے لیے روٹرڈیم پہنچ بھی گئی تھیں، انہیں پولیس کی حفاظت میں ہالینڈ سے نکال کر واپس جرمنی بھیج دیا گیا تھا۔

انقرہ حکومت کے وزراء آئینی ریفرنڈم سے متعلق چند یورپی ملکوں میں جو سیاسی مہم چلانا چاہتے تھے، اس سے انکار پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے تو جرمنی اور ہالینڈ کے سیاسی رہنماؤں کو ’’نازی‘‘ اور ’’فاشسٹ‘‘ بھی قرار دے دیا تھا۔

ڈی پی اے کے مطابق جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے اس سلسلے میں یہ بھی کہا کہ ترکی، جو ایک طویل عرصے سے یورپی یونین کی رکنیت کا خواہش مند ہے، اس کی مستقبل بعید میں بھی اس یورپی بلاک میں شمولیت کے امکانات آج ماضی کے مقابلے میں کہیں کم تر ہو چکے ہیں۔

گابریئل نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں وہ جرمن چانسلر کی اس سوچ کے حامی نہیں تھے کہ ترکی کو یورپی یونین کی مکمل رکنیت دینے کے بجائے اس کے ساتھ کوئی ’خصوصی پارٹنرشپ‘ معاہدہ طے کیا جانا چاہیے تاہم بریگزٹ اور ترک حکومت کے حالیہ ردعمل کے بعد اب وہ قطعی مختلف سوچ کے حامل ہو چکے ہیں۔

جرمن وزیر خارجہ نے اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر یورپی یونین آئندہ برطانیہ کے ساتھ کسی بھی طرح کے خصوصی روابط سے متعلق کوئی معاہدہ طے کر سکتی ہے، تو یہ دوسرے ممالک کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے۔