1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی اور سعودی عرب عسکری مداخلت کر سکتے ہیں، صدر اسد

عاطف بلوچ12 فروری 2016

شامی صدر بشار الاسد نے عہد ظاہر کیا ہے کہ وہ پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیں گے لیکن انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس عمل میں ’طویل وقت‘ درکار ہو گا۔

https://p.dw.com/p/1HucP
Damaskus Baschar al-Assad AFP Interview
شامی صدر کے بقول وہ تمام شامی مہاجرین کی ملک واپسی کے خواہمشند ہیںتصویر: Getty Images/AFP/J. Eid

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے خصوصی گفتگو میں شامی صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ وہ امن عمل کی حمایت کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دمشق حکومت دہشت گردی کے خلاف لڑائی ترک کر دے گی۔

دمشق میں اپنے دفتر میں خصوصی انٹرویو میں اسد کا کہنا تھا کہ وہ ملک کو بازیاب کرا لیں گے لیکن اس میں طویل وقت چاہیے ہو گا۔

اسد نے کہا کہ شمالی صوبے حلب میں روسی جیٹ طیاروں کی مدد سے جاری آپریشن کا مقصد یہ ہے کہ ترکی سے اپوزیشن کی سپلائی لائن کو توڑ دیا جائے۔

شامی صدر نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ترکی اور سعودی عرب شام میں عسکری مداخلت کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ انقرہ اور ریاض شامی اپوزیشن کے اہم حامیوں میں تصور کیے جاتے ہیں۔

مہاجرین کے بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے شامی صدر کا کہنا تھا کہ یورپ کو چاہیے کہ وہ ’دہشت گردوں کا ساتھ دینا چھوڑ دے‘ تاکہ شامی مہاجرین وطن واپس لوٹنے کے قابل ہو سکیں۔

اسد نے اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ جنگی جرائم کے الزامات کو بھی مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزامات سیاسی ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

روسی بمباری کے تعاون سے شامی فورسز نے تقریبا حلب کا محاصرہ کر لیا ہے۔ اس پیشرفت کو اہم قرار دیتے ہوئے اسد نے اصرار کیا کہ آہستہ آہستہ ان کی فورسز پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیں گی۔

شام کے وسیع تر علاقوں میں باغیوں اور انتہا پسند گروہ داعش کے جنگجوؤں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ دونوں گروہ اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کی کوشش میں ہیں۔

اسد کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ شام کے کسی علاقے میں باغیوں کو برداشت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان باغیوں کو ترکی، اردن اور عراق سے ملنے والی مدد کو روک دیا جائے تو ایک برس میں وہ ان طاقتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

Syrien, Flüchtlinge bei Aleppo
حلب میں تازہ تشدد کی وجہ سے بے گھر ہونے والے کنبے ترکی کا رخ کر رہے ہیںتصویر: picture alliance/AA/A. Muhammed Ali

اسد کے بقول، ’’اگر ایسا نہ ہوا تو صورتحال پیچیدہ ہو جائے گی اور اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘ جنیوا امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد اسد نے پہلی مرتبہ کسی غیر ملکی ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ امن مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شامی تنازعے کے خاتمے کے لیے دہشت گردوں کو مات دینا ناگزیر ہے۔

شامی صدر کے بقول وہ تمام شامی مہاجرین کی ملک واپسی کے خواہمشند ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ جب تک ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا، تب تک لوگ واپس آنے کا خطرہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ وہ ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے ملک کے محفوظ بنائیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں