1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: ننانوے جرنیلوں کے خلاف باقاعدہ فرد جرم عائد

شکور رحیم، استنبول20 جولائی 2016

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومت نے گرفتار کیے گئے ننانوے جرنیلوں کے خلاف باقاعدہ فرد جرم اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے بیرون ملک جانے پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JSll
Türkei Verhaftungen nach Putschversuch
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kula

ترک وزارت دفاع نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فوجی ججوں اور پراسیکیوٹرز کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس بیان کے مطابق دو سو باسٹھ فوجی ججوں اور استغاثہ کو معطل کر کے ان کے خلا ف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے۔

دوسری جانب حکومت نے ناکام بغاوت کے بعد مشتبہ افراد کے خلاف کارروائیوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس میں تعلیم کا شعبہ بھی آتا ہے۔ ترکی کی اعلی تعلیم کونسل(یوک) نے بدھ کو تعلیم کے شعبے سے وابستہ ماہرین اور دانشوروں کے بیرون ملک جانے پر عارضی پابندی عا ئد کر دی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی سرگرمیوں کے سلسلے میں بیرون ملک گئے ہوئے افراد کو فوری ملک واپس آنے کا کہا گیا ہے۔

اعلی تعلیمی کونسل نے ملک بھر میں قائم سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں کے ساڑھے پندرہ سو سے زائد سربراہان سے استعفے طلب کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کے منتظیمن کو تمام ملازمیں کے بارے میں پانچ اگست تک رپورٹیں جمع کروانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں یہ اقدام امریکا میں مقیم ترکی کے ایک مذہبی سکالر اور کاروباری شخصیت فتح اللہ گؤلن کی تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد کا قلع قمع کرنا ہے۔ ترک حکومت جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب کی گئی ناکام فوجی بغاوت کا ذمہ دار فتح اللہ گؤلن کو ہی قرار دیتی ہے۔

Türkei - Nationaler Sicherheitsrat trifft sich unter Präsident Erdogan
تعلیمی سرگرمیوں کے سلسلے میں بیرون ملک گئے ہوئے افراد کو فوری ملک واپس آنے کا کہا گیا ہےتصویر: Reuters/K. Ozer

ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں قائم ٹوب یونیورسٹی آف اکنامکس اینڈ ٹیکنالوجی میں شعبہ بین االاقوامی تعلقات سے منسلک ڈاکٹر شعبان کارداش کا کہنا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد تعلیم کے شعبے میں کی جانیوالی کارروائیوں کا تعلیم کے شعبے پر فوری اثر پڑنے کے امکانات کم ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اس وقت ملک کے اکثر تعلیمی اداروں میں موسم گرما کی تعطیلات ہیں اور اکیڈمک کام ویسے بھی کم ہیں۔ ان تعطیلات کے ختم ہونے میں ابھی دو ماہ ہیں تو میرے خیال میں اس وقت تک یہ فیصلہ ہو چکا ہو گا کہ کس نے واپس اپنے کام پر آنا ہے اور کس نے نہیں۔‘‘

ان کا مزید وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمیں گرفتار، زیر حراست اور تحقیقات کے لئے اپنے عہدوں سے ہٹاٗئے جانے والے افراد میں فرق کرنا ہو گا۔ تعلیمی اداروں سے جن لوگوں کو ہٹایا جا رہا ہے ان کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی۔‘‘

خیال رہے کہ ترکی کی وزارت تعلیم نے منگل کو اپنے پندرہ ہزار اہلکاروں کو فارغ کرنے اور نجی سکولوں میں پڑھانے والے اکیس ہزار اساتذہ کے لائسنس منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ترک حکومت کی جانب سے ناکام فوجی بغاوت کے بعد فوری طور پر جن اداروں سے بغاوت کے ہمدرد افراد کی چھانٹی شروع کی گئی تھی ان میں فوج، پولیس، عدلیہ، مذہبی امو اور تعلیم کے شعبے شامل ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ناکام فوجی بغاوت کے بعد گرفتار، معطل اور برطرف کیے گئے افراد کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہوگٗئی ہے۔ سول اداروں سے معطل کیے گئے ججوں، اعلیٰ افسران اور ملازمیں کی تعدا اکیس ہزار سے زائد ہے۔

امریکا اور یورپی یونین سمیت اندرون ملک حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی ترک حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد اپنے رد عمل کو قانون کے دائرے میں رکھے۔

ڈاکٹر شعبان کارداش کا کہنا ہے کہ اس وقت ترکی صورتحال پر بیرون ملک جو تشویش پائی جاتی ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن فی الحال اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ترکی میں جمہوریت، جمہوری اداروں اور منتخب حکومت کو خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے کہا، ’’سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ترکی اس وقت ایک ایسے حادثے کا شکار ہوتے ہوئے بچا ہے جس کے اثرات سے باہر نکلنے کے لیے وقت کی ضرورت ہے اور یہ وقت دیا جانا چاہیے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت کو ان مطالبات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے، جو اس وقت اس سے انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کیے جا رہے ہیں۔