1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی یورپی یونین میں؟ یورپی پارلیمان مکالمت کے خاتمے کی حامی

14 مارچ 2019

یورپی پارلیمان نے اکثریتی طور پر منظور کردہ ایک قرارداد میں مطالبہ کیا ہے کہ کئی سال سے جاری لیکن گزشتہ کافی عرصے سے تعطل کا شکار، ترکی کے ساتھ اس کی یورپی یونین میں ممکنہ رکنیت سے متعلق مکالمت کا سلسلہ ختم کر دیا جائے۔

https://p.dw.com/p/3F1bS
تصویر: imago/blickwinkel

اسٹراسبرگ میں ہونے والے یورپی پارلیمان کے ایک اجلاس میں بدھ تیرہ مارچ کی شام ارکان نے اس بات کی حمایت کر دی کہ برسلز کے انقرہ کے ساتھ ’ایسوسی ایشن ڈائیلاگ‘ کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔ اس قرارداد میں اس کے لیے ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی تھی کہ صدر رجب طیب ایردوآن کے دور میں ترکی میں کئی پہلوؤں سے سیاست اور جمہوریت کا سفر آگے کے بجائے پیچھے ہی گیا ہے۔

Türkei, Istanbul, Blaue Moschee mit EU-Fahne
تصویر: picture-alliance

اس قرارداد کی پارلیمان کے 370 ارکان نے حمایت کی اور 109 نے مخالفت جبکہ 143 اراکین نے اپنی رائے محفوظ رکھی اور ووٹنگ میں حصہ نہ لیا۔ اس مسودے میں ترکی پر تنقید کرتے ہوئے جن دیگر منفی پہلوؤں کا خاص طور سے ذکر کیا گیا تھا، ان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے پائے جانے والے سقم نمایاں تھے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ یورپی کمیشن کے لیے اس قرارداد پر عمل درآمد قانوناﹰ لازمی نہیں لیکن اس پارلیمانی فیصلے کی پھر بھی اپنی ایک خاص سیاسی اہمیت ہے۔ اس مسودہ قرارداد کی منظوری کے ساتھ یورپی ارکان پارلیمان نے انقرہ کو یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ 2016ء میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے وہاں جس طرح کریک ڈاؤن کیا گیا، میڈیا کی آزادی کو محدود بنایا گیا اور شہری حقوق کی نفی کی گئی، ان سب عوامل پر یورپی یونین میں کئی سطحوں پر پائی جانے والی تشویش سے انکار ممکن نہیں اور اس صورت حال کا سدباب کیا جانا چاہیے۔

صحافی قیدیوں کی تعداد کا عالمی ریکارڈ

اسٹراسبرگ کی پارلیمان نے اس قرارداد کی حمایت کیوں کی، اس بات کو ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک سوشلسٹ خاتون رکن پارلیمان کے موقف سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ رائے شماری سے قبل کاٹی پیری نامی اس ڈچ سیاستدان نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا کہ یورپی یونین اور یورپی پارلیمان نے انقرہ سے آج تک بنیادی انسانی حقوق کے احترام کے جتنے بھی مطالبات کیے ہیں، ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

کاٹی پیری نے پارلیمانی اراکین کو بتایا، ’’ترکی نے اپنے ہاں آج بھی اتنی بڑی تعداد میں صحافیوں کو جیلوں میں قید کر رکھا ہے کہ یہ تعداد اپنی جگہ پر ایک عالمی ریکارڈ ہے۔‘‘

ترکی بیس سال سے رکنیت کا امیدوار

ترکی گزشتہ تقریباﹰ بیس سال سے یورپی یونین میں شمولیت کا امیدوار ملک ہے۔ یونین کی انقرہ کے ساتھ دو عشرے قبل شروع کی گئی بات چیت کا مقصد ترکی میں ایسی تبدیلیوں اور اصلاحات کے لیے مذاکرات کرنا تھا، جن کے نتیجے میں اس ملک میں سیاسی، سماجی اور قانونی معیارات کو بتدریج یورپی معیارات کے ہم پلہ بنایا جا سکے۔

برسلز اور انقرہ کے مابین یہ مذاکراتی عمل گزشتہ کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔ یہ دوطرفہ مذاکرات آج تک باقاعدہ طور پر اس لیے معطل یا ختم نہیں کیے گئے کہ اس موضوع پر یونین کی رکن ریاستوں میں سے متعدد اختلاف رائے کا شکار ہیں۔

انقرہ نے قرارداد رد کر دی

یورپی پارلیمان کی اس قرارداد کی منظوری کے بعد کل بدھ کی رات ہی ترک حکومت نے اس پارلیمانی فیصلے کو ’قطعی یک طرفہ‘ قرار دیتے ہوئے نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ انقرہ آج تک اپنے اس عشروں پرانے ہدف پر قائم ہے اور اس کے لیے کوششیں بھی کر رہا ہے، جس کی تکمیل پر اسے یورپی یونین کی رکنیت دی جانا چاہیے۔

اس بارے میں ترک وزارت خارجہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ یورپی پارلیمان نے یہ قرارداد ایک ایسے وقت پر منظور کی ہے، جب ترکی اور یورپی یونین دونوں ہی آپس کے تعلقات میں جمود کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

م م / ا ا / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں