1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تعاون نہ کرنے والے ممالک کے عام شہریوں کو ویزا نہ دیا جائے‘

30 مارچ 2018

برلن حکومت کے مطابق بھارت اور پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک اپنے شہریوں کی وطن واپسی میں جرمنی کے ساتھ تعاون کرنے سے گریزاں ہیں۔ ایسے ممالک کے عام شہریوں کے لیے جرمن ویزے کا حصول مشکل بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2vFsJ
Ukraine Reisepass Pass Visum Schengen
تصویر: Sergei Supinsky/AFP/Getty Images

جرمنی سے پناہ کے مسترد شدہ درخواست گزاروں کی واپسی میں تعاون نہ کرنے والے ممالک پر دباؤ ڈالنے کے مطالبات پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم اب ملکی وزارت داخلہ کی تیار کردہ ایک تازہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد ایسے ممالک کے خلاف عملی اقدامات کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

پناہ کے ناکام متلاشیوں کو واپس لو، ورنہ ویزا پابندیاں بھگتو

اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان سمیت کئی ممالک اپنے ایسے شہریوں کی وطن واپسی میں تعاون نہیں کرتے، جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔

جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں کے وزارائے داخلہ کی کانفرنس کے سربراہ ہولگر شٹاہلنخت نے اس رپورٹ کے بعد وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تارکین وطن کی واپسی میں جرمنی سے تعاون نہ کرنے والے ممالک کے شہریوں کے لیے جرمن ویزے کا حصول مشکل بنایا جائے۔

صوبائی وزرائے داخلہ کی کانفرنس کے سربراہ نے اپنے اس مطالبے کے ممکنہ طور پر کارگر ہونے سے متعلق نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’انڈیا ہی کی مثال لے لیجیے، نئی دہلی کے جرمنی میں تجارتی اور اقتصادی مفادات ہیں۔ اگر وہ جرمنی میں مقیم اپنے ایسے شہریوں کی واپسی میں تعاون نہیں کریں گے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں تو بھارتیوں کے لیے ویزے کا حصول مشکل بنانے کے بعد نئی دہلی کے اقتصادی مفادات کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔‘‘

بھارت اور جرمنی کے مابین پناہ کے ایسے مسترد درخواست گزاروں کی وطن واپسی سے متعلق کئی مرتبہ تفصیلی مذاکرات کے باجود کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز تک ملک میں دو لاکھ انتیس ہزار تارکین وطن ایسے تھے، جنہیں لازمی طور پر جرمنی سے ملک بدر کیا جانا چاہیے۔ ان میں سے قریب تریسٹھ ہزار غیر ملکیوں کے پاس سفری دستاویزات نہ ہونے کے سبب ان کی ملک بدری پر عارضی طور پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ گزشتہ بارہ ماہ کے دوران چوبیس ہزار تارکین وطن کو جرمنی سے ملک بدر کیا گیا، یہ تعداد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

جرمن ریاست سیکسنی انہالٹ کے وزیر داخلہ کے مطابق صوبائی حکومتیں 78 فیصد تارکین وطن کو محض اس لیے ملک بدر نہیں کر پائیں کیوں کہ ایسے پناہ گزینوں کے آبائی ممالک ان کی واپسی کے لیے برلن حکومت سے تعاون پر تیار نہیں۔ صوبائی وزرائے داخلہ کی کانفرنس نے نئے وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں اضافہ کرنے کی کوششوں کی حمایت کی ہے۔

ش ح/ ا ب (ڈی پی اے)

وہ جرمن شہر، جہاں مہاجرین کو گھر بھی ملتا ہے اور روزگار بھی

’مہاجرین کی واپسی میں عدم تعاون پر یورپ کا ویزا نہیں ملے گا‘