1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیس سالہ روسی، دنیا کا خطرناک ترین ہیکر

مقبول ملک3 جون 2014

امریکی حکام نے کئی یورپی ملکوں کی مدد سے کمپیوٹر ہیکرز کے ایک ایسے خطرناک گروہ کو ناکام بنا دیا ہے، جو اب تک ہزارہا متاثرین سے 100 ملین ڈالر سے زائد کی رقوم ہتھیا چکا ہے۔ گروپ کے روسی سرغنہ بوگاشیف کی تلاش جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/1CBEW
تصویر: Fotolia/apops

واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق کمپیوٹر ماہرین کے اس جرائم پیشہ گروپ کو ناکام بنانے کے لیے عالمی سطح پر تعاون کیا گیا۔ اس عمل میں امریکی محکمہء انصاف کو شمالی امریکا میں کینیڈا کے ساتھ ساتھ یورپ میں فرانس، جرمنی، لکسمبرگ، ہالینڈ، یوکرائن اور برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام اور سائبر کرائمز کے ماہرین کا بھی مکمل تعاون حاصل رہا۔

امریکی محکمہء انصاف کی طرف سے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل لیزلی کالڈویل نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ ہیکرز کے اس گروپ کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے مربوط آپریشن کو کامیاب بنانے میں ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم سائبر کرائمز کے ‌خلاف یورپی مرکز نے کلیدی کردار ادا کیا۔

Symbolbild Hacker
یہ نیٹ ورک ’فِشنگ ای میلز‘ کے ذریعے کام کرتا تھاتصویر: lassedesignen

ہیکرز کے اس نیٹ ورک کا نام Gameover Zeus بتایا گیا ہے، جو اپنے ناکام بنائے جانے سے پہلے تک دنیا بھر میں ہزار ہا صارفین سے مجموعی طور پر 100 ملین ڈالر سے زائد کی رقوم ہتھیا چکا تھا۔

اس گروپ نے بنیادی طور پر نقصان دہ سافٹ ویئر یا کمپیوٹر کی اصطلاح میں malware کہلانے والا ایسا پروگرام تیار کر رکھا تھا، جو ایک آن لائن وائرس کے طور پر مختلف کمپیوٹرز میں پہنچ کر وہاں محفوظ صارفین کی نجی اور مالیاتی معلومات یا آن لائن بینکنگ سے متعلق ڈیٹا کی جاسوسی کرتا تھا۔

اس طرح صارفین کو علم بھی نہیں ہوتا تھا اور یہ ہیکرز ان کی ملکیتی رقوم غیر قانونی آن لائن ٹرانسفر کے ذریعے چوری کر لیتے تھے۔ امریکی اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کالڈویل نے پیر دو جون کی رات ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ Gameover Zeus گروپ نے ہیکنگ کے لیے Cryptolocker کہلانے والی ایک ایسی مجرمانہ سافٹ ویئر اسکیم بھی تیار کر رکھی تھی، جس کے ذریعے متاثرہ صارفین کے کمپیوٹرز کو ’آن لائن یرغمالی‘ بنا لیا جاتا تھا اور ایسے ’یر‌غمالی کمپیوٹرز کو رہائی‘ اس وقت ملتی تھی جب ان کے مالکان ان ہیکرز کو براہ راست مالی ادائیگی پر تیار ہو جاتے تھے۔

اس گروپ کے سرغنہ کا نام اَیوگینی بوگاشیف بتایا گیا ہے، جو ایک روسی شہری ہے اور جو آخری مصدقہ اطلاعات ملنے تک روس میں آناپا کے شہر میں رہائش پذیر تھا۔ امریکی اور یورپی حکام کے مطابق بوگاشیف اس وقت مفرور ہے اور اس کی تلاش جاری ہے۔

امریکی حکام کے بقول فی الحال ’گیم اوور زیئس کی کرِپٹولاکر اسکیم‘ کو ناکارہ تو بنا دیا گیا ہے لیکن اَیوگینی بوگاشیف اتنا خطرناک ہیکر ہے کہ وہ ممکنہ طور پر ایسا ہی ایک نیا ہیکنگ نیٹ ورک اگلے چند ہفتوں کے دوران دوبارہ بھی قائم کر سکتا ہے۔ اس گروپ کا malware بنیادی طور پر مختلف ملکوں میں صارفین کے کمپیوٹرز تک phishing emails کے ذریعے رسائی حاصل کرتا تھا۔

Symbolbild Computer Hacker Attacke
بوگاشیف کی عمر تیس سال ہے اور وہ بظاہر کشتی رانی کا بہت شوقین ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اَیوگینی بوگاشیف کی عمر 30 سال بتائی گئی ہے اور امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے اسے دنیا کے ’خطرناک ترین سائبر مجرموں میں سے ایک‘ قرار دیتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بوگاشیف کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا چکے ہیں اور اس کا نام سی آئی اے کی ’انتہائی مطلوب سائبر مجرموں‘ کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بوگاشیف، جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ اس وقت کہاں ہے، بظاہر کشتی رانی کا بہت شوقین ہے۔ اس کا ہیکنگ نیٹ ورک اتنا کامیاب تھا کہ اس نے اپنی ’کرِپٹو لاکر‘ اسکیم کے ذریعے امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک بینک سے غیر قانونی ٹرانسفر کے ذریعے قریب سات ملین ڈالر ہتھیائے اور ریاست میساچوسٹس کے شہر Swansea کے شعبہ پولیس کو بھی اس کا کمپیوٹر نیٹ ورک ’یرغمال‘ بنا کر تاوان کی ادائیگی پر مجبور کر دیا۔

بوگاشیف صرف امریکا میں ایک درجن سے زائد بڑے مقدمات میں مطلوب ہے۔ اس کے ہیکنگ گروپ کے خلاف کم از کم 10 ملکوں میں کی جانے والی حالیہ لیکن بہت مربوط کارروائی کے دوران حکام نے بہت سے ایسے کمپیوٹرز اپنے قبضے میں لے لیے، جنہیں مختلف سائبر کرائمز کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ دنیا بھر میں اس گروہ کی طرف سے ہیکنگ سے متاثرہ عام شہریوں، کاروباری اداروں اور سرکاری محکموں کے کمپیوٹرز کی تعداد لاکھوں میں بتائی گئی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید