1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 تیونس، مراکش اور الجزائر ’محفوظ زون‘ ہیں، جرمن کابینہ

صائمہ حیدر ٹموتھی جونز، جیفرسن چیز
19 جولائی 2018

جرمن کابینہ تین شمالی افریقی ممالک اور جارجیا کو مہاجرین کے حوالے سے محفوظ قرار دیے گئے ملکوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا اس فیصلےکی جرمن پارلیمان کے ایوان بالا میں بھی حمایت کی جائے گی؟

https://p.dw.com/p/31jL5
Flüchtlinge aus Nordafrika
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن وفاقی کابینہ تیونس، مراکش، الجزائر اور جارجیا کو ایسے ممالک کی فہرست میں ڈالنے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے جو وہاں سے ترک وطن کرنے والے افراد کے لیے محفوظ قرار دیے جا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ جرمن چانسلر کی اپنی کابینہ کے ساتھ ہفتہ وار میٹنگ میں کیا گیا ہے۔

اگر یہ قانون نافذالعمل ہو جاتا ہے تو پھر جرمنی کے لیے ان ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو ڈی پورٹ کرنا آسان ہو جائے گا۔ مذکورہ ممالک کی حکومتوں پر اکثر و بیشتر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اس حوالے سے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ’محفوظ‘ ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد جرمنی میں پناہ کے حق کا مطالبہ نہیں کر سکیں گے، تاہم ان ممالک کے قانونی طور پر جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے والے یا ملازمت کرنے والے شہریوں کو ملک بدری سے استثنا ہو سکتا ہے۔‘‘

زیہوفر کا کہنا تھا کہ ان مذکورہ ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کوجرمنی میں  پناہ ملنے کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔

یہ حکومتی اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دہشت گرد نیٹ ورک القائدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے مبینہ باڈی گارڈ کو تیونس ڈی پورٹ کیے جانے پر مختلف حلقوں میں بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم جرمن پارلیمان میں قدامت پسند جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قانون سازی میں جرائم سے خاتمے کی تجویز بھی شامل ہونی چاہیے۔

Infografik Von Deutschland als sicher eingestufte Herkunftsländer EN

قدامت پسند جماعتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو کے پارلیمانی گروپ کے نائب چیئر مین اشٹیفان ہربرتھ نے ایک بیان میں کہا،’’ ان ممالک کی محفوظ ممالک کی فہرست میں شمولیت طویل عرصے سے التوا کا شکار تھی۔ بد قسمتی سے ان ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا تناسب بھی زیادہ پایا گیا ہے۔‘‘

یہ مجوزہ بل جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے مہاجرین سے متعلق’ ماسٹر پلان‘ کا ایک حصہ ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ آیا یہ کبھی باقاعدہ قانون بن سکے گا۔

اس کا سبب یہ ہے کہ مہاجرین کی ڈی پورٹیشن کی ذمہ دار وفاقی جرمن حکومت نہیں بلکہ جرمنی کی سولہ ریاستیں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مجوزہ قانونی دستاویز کو نہ صرف جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا ’ بنڈس ٹاگ‘ میں منظور کیا جائے، جہاں حکومت کو اکثریت حاصل ہے، بلکہ اسے ملکی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی ’بنڈس راٹ‘ سے بھی منظور ہونا ضروری ہے جہاں حکومت اکثریت میں نہیں۔

پارلیمان کے ایوان بالا میں اس قانون کی منظوری ’گرین پارٹی‘ جیسی اپوزیشن جماعتوں پر منحصر ہے اور اس بات کو زیہوفر بھی تسلیم کر چکے ہیں۔ اشٹیفان ہربرتھ کا کہنا ہے کہ قانون میں تبدیلی کی اس دستاویز کو گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی محض ’ گرینز‘ کی مخالفت کی بنا پر نامنظور نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم ایسے آثار ہیں کہ مجوزہ قانون کو اس باربھی منظور نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ چند جرمن صوبوں میں گرین پارٹی اب بھی اکثریت میں ہے۔

 

ص ح / ع ح /