1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن استغاثہ ایزدی خاتون کے دعووں کی تفتیش کرے گا

19 اگست 2018

جرمن حکام کا کہنا ہے کہ وہ داعش کے چنگل سے فرار ہونے والی ایزدی خاتون کے دعوؤں کی بابت تفتیش کرنے کے لیے تیار ہیں، جن میں کہا گیا تھا کہ اسے مغوی بنانے والے جہادی سے جرمنی میں اس کی دو مرتبہ مڈبھیڑ ہوئی۔

https://p.dw.com/p/33OCv
Irak - Versklavung von Jesiden - Ashway Haji Hamid
تصویر: privat

جرمن پراسیکیوٹرز کے مطابق وہ ایزدی مہاجر خاتون کے ان دعوؤں کی بابت تفتیش کے لیے تیار ہیں، جن میں اس خاتون نے دعویٰ کیا تھا کہ عراق میں اسے مغوی بنانے والے داعش کے جہادی کا اس سے جرمنی میں دو مرتبہ سامنا ہوا۔ جرمن حکام نے ان رپورٹوں کو مسترد کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔

’شِنگل‘، عراقی ایزدیوں کا گم شدہ وطن

داعش سنی خواتین پر جنسی حملوں میں بھی ملوث، ہیومن رائٹس واچ

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے جرمن وفاقی دفترِ استغاثہ کی ترجمان فراؤکے کؤہلر کے حوالے سے کہا ہے کہ حکام کو اس ’جہادی‘ کی شناخت کے لیے ایزدی خاتون سے مزید تفصیلات درکار ہیں۔

کؤہلر نے ہفتے کے روز ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ’’اس نوجوان لڑکی کا انٹرویو لیا گیا ہے، تاہم مہیا کی گئی معلومات کافی نہیں ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکام ابھی اس بابت معلومات جمع کرنے میں مصروف تھے، جب یہ خاتون مزید تفصیلات مہیا کرنے سے قبل ہی جرمنی چھوڑ گئی۔

واضح رہے کہ عراق کی اقلیتی ایزدی برادری سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ لڑکی اشواق حجی حمید نے کہا تھا کہ اس نے اپنے اغوا کار کو دیکھنے کے بعد فروری 2018 کو پولیس سے رابطہ کیا تھا، تاہم حکام کی جانب سے کسی ایمرجنسی کی صورت میں کال کے لیے اسے ایک نمبر دینے کے علاوہ کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی۔

کؤہلر نے تاہم ان خبروں کو رد کیا کہ جرمن دفتر استغاثہ نے اس معاملے میں دلچسپی نہیں دکھائی، ’’اگر ہمیں اس معاملے میں کوئی امکان دکھائی دیتا کہ ہم کسی کو گرفتار کر سکتے ہیں، تو ہم اس پر فوراﹰ عمل کر چکے ہوتے۔ اگر ہمیں اس بابت مزید معلومات ملتی ہے، تو ہم اس کا منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔‘‘

کؤہلر نے تاہم کہا کہ اس کے لیے اس نوجوان ایزدی لڑکی کو جرمنی آنا ہو گا، کیوں کہ یہ قانونی ضرورت ہے۔

’’اگر میرے بچے نہیں ہوتے، تو میں نے خود کشی کرلی ہوتی۔‘‘

واضح رہے کہ جرمنی کے جنوب مغربی صوبے باڈن ووٹنبرگ کی پولیس نے بدھ کے روز کہا تھا کہ اس نے مارچ سے اس معاملے پر تفتیش کا آغاز کیا تھا، جب کہ جون میں یہ معاملہ وفاقی دفتر استغاثہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا، تاہم اس معاملے میں پیش رفت اس لیے نہیں ہو سکی کیوں کہ ’’عینی شاہد پوچھ گچھ کے لیے دستیاب نہیں ہے۔‘‘

اشواق حمید سن 2015ء میں داعش کے تشدد کی شکار ایزدی خواتین کی مدد کے ایک پروگرام کی بدولت جرمن صوبے باڈن ووٹنبرگ پہنچی تھیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں جرمنی میں دو مرتبہ وہ شخص دکھائی دیا، جس نے انہیں سن 2014ء میں دس ہفتوں تک غلام بنا کر قید میں رکھا تھا۔ اس لڑکی نے یہ کہہ کر جرمنی چھوڑ دیا تھا کہ وہ یہاں خود کو محفوظ تصور نہیں کر رہی ہے۔ اب یہ لڑکی عراقی کردستان خطے میں ایک کیمپ میں اپنی والدہ اور والدہ کے ساتھ رہ رہی ہے۔

ٹموتھی جونز، ع ت، ع، ب (اے پی)