1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن شہريوں کی سوچ و نظريات: حقيقت کيا، افسانہ کيا؟

3 اکتوبر 2018

دیوار برلن تیس برس قبل منہدم ہوئی تھی۔ جرمنی 1990ء میں ایک ہوا تھا۔ جرمنی میں 83 ملین افراد رہتے ہیں، جن میں مقامی باشندے، نئے آنے والے اور تارکین وطن شامل ہیں۔ کیا ان میں اور ان کی خصوصیات میں کوئی فرق ہے؟

https://p.dw.com/p/35uK5
Menschenkette trägt Spenden zu Flüchtlingsunterkunft
تصویر: Imago/C. Mang

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ویسٹ فیلیا کے لوگ ضدی، شمالی جرمنی کے شہری کم گو اور باویریا میں رہنے والے فطرتاً سخت مزاج ہوتے ہیں۔ جرمنی کے مختلف علاقوں میں بسنے والوں کی مختلف خصوصیات بیان کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر ڈاگمار ہینزل لوگوں کی خصوصیات سے متعلق سوالات کے جوابات دینے میں ماہر ہیں۔ وہ جرمن شہر بون میں عوامی حکایات اور علاقائی تاریخ کے حوالے سے قائم ایک ادارے سے منسلک ہیں۔

Symbolbild Türken in Deutschland
تصویر: Imago/W. Rothermel

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جرمنی کے مختلف خطوں اور شہروں میں بسنے والوں کی مختلف خصوصیات بیان کی جاتی ہیں۔ ان کے بقول ’اسٹیریو ٹائپس‘ ہمیشہ عام تاثر کی عکاسی کرتے ہيں۔ مثال کے طور پر آپ کچھ واقعات یا شاید ایک واقعے کی بنا پر تمام لوگوں کو ایک جیسا سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں سیاسی طور پر دائیں بازو کے نظریات رکھنے کی وجہ سے آپ ریاست سیکنسی کے تمام لوگوں کو دائیں بازو کا شدت پسند قرار نہیں دے سکتے۔

سوال: آج کل جرمنی میں غیر ملکیوں کی آمد پر شدید بحث جاری ہے۔ باہر سے آنے والا کس طرح معاشرے میں ضم ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر ڈاگمار ہینزل: میرے خیال میں کسی بھی تارک وطن کو سب سے پہلے جرمن زبان سیکھنی چاہیے۔ یہی وہ کنجی ہے، جس کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں کے دروازے کسی بھی غیر ملکی کے لیے کھلتے ہیں۔ ہم آہنگی اسی وقت اچھے طریقے سے پیدا ہوتی ہے، جب غیر ملکی اور مقامی شہری ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اور اختلافات پر بحث کی جاتی ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں جرمنی میں جمہوریت کی اصل اقدار  اور ماضی کو نہ بھلانے کی روایت قائم ہو چکی ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جو جرمنی کو دیگر یورپی ممالک سے کچھ حد تک ممتاز بناتی ہے۔

تارکین وطن خواتین کا انضمام، کھیل اور ورک آؤٹ کے ساتھ