1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور جرمنوں میں خاص بات کیا ہے؟

4 اکتوبر 2018

برطانوی مصنف اسٹیفن گرین نے جرمن تاریخ کے بارے میں جو کتاب لکھی ہے، اسے ان کی طرف سے جرمنی اور جرمن ثقافت سے اعلان محبت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اسٹیفن گرین کے بقول جرمنی یورپ اور پوری دنیا کے لیے ایک رول ماڈل ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/35yVN
برطانوی مصنف اسٹیفن گرینتصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld

اس برطانوی مصنف نے اپنی اس کتاب کے بارے میں ڈوئچے ویلے کے لیے پاؤلا روئزلر کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے اپنی یہ کتاب 2014ء میں لکھی تھی اور کچھ ہی عرصے بعد اس کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی شائع ہو گیا تھا۔

اس کتاب کے انگریزی ایڈیشن کا عنوان ہے، ’’پیارا جرمنی: جرمنی کا ماضی کس طرح یورپ کے مستقبل کی تشکیل کر رہا ہے۔‘‘ اس کے برعکس اس کتاب کے جرمن زبان میں شائع ہونے والے ایڈیشن کا ٹائٹل ہے، ’’پیارا جرمنی: ماضی کے حامل ایک ملک کے لیے اعلان محبت۔‘‘

اس کتاب کے جرمن اور انگریزی زبانوں میں عنوانات ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہیں، اس بارے میں اسٹیفن گرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’انگریزی زبان کے ایڈیشن کا عنوان میں نے خود دیا تھا لیکن اس کے جرمن ایڈیشن کا ٹائٹل اس کتاب کے جرمن پبلشر کے ساتھ میرے تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد منتخب کیا گیا تھا۔ میں نے اس کی منظوری اس لیے دی کہ یہ اس کتاب کے اسی پہلو کی نمائندگی کرتا ہے، جو میرے لیے بہت اہم ہے۔ یہ عنوان جرمن تاریخ و ثقافت سے میری اس محبت کا عکاس بھی ہے، جس کے بہت سے مختلف پہلو ہیں۔‘‘

لیکن جرمنی اور جرمنوں کی اسٹیفن گرین کے مطابق خاص بات کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں اس برطانوی مصنف نے کہا، ’’جرمنی ایک ایسا خوبصورت ملک ہے جہاں میں نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ گزارا ہے۔ میں نے جرمنی کے مختلف حصوں کو شاید بہت سے جرمنوں سے بھی کہیں زیادہ قریب سے اور گہرائی میں دیکھا ہے۔‘‘

اسٹیفن گرین کے مطابق، ’’جرمن ثقافت انتہائی شاندار اور بہت گہری جڑوں والی ہے۔ جرمنی اور جرمنوں نے اپنی سوچ اور ثقافت کے اظہار کے لیے فن تعمیرات، موسیقی، ادب، فلسفے اور بہت سے دیگر شعبوں میں دنیا کو بہت سے نئے زاویے اور امکانات دیے۔ میری رائے تو یہ ہے کہ جرمن ثقافت سے زیادہ عظیم تر ثقافت شاید کوئی ہے ہی نہیں۔‘‘

Buchcover Dear Germany, von Stephen Keith Green
اسٹیفن گرین کی کتاب کے جرمن ایڈیشن کا ٹائٹلتصویر: Theiss Verlag

اس کتاب کے مصنف نے ماضی کے کلاسیکی جرمن موسیقاروں، فلسفیوں اور مصنفین کے لیے جس احترام و محبت کا اظہار کیا ہے، کیا آج کے جرمن باشندے بھی دنیا کے لیے اتنے ہی اچھے رول ماڈل ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اسٹیفن گرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بلاشبہ آج کا جرمنی اور جرمن بھی دنیا کے لیے بہت اہم رول ماڈل ہیں۔ سب سے حیران کن بات وہ تہرا معجزہ ہے، جو جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کر دکھایا تھا۔ ان میں سے پہلا معجزہ تو وہ اقتصادی کامیابی تھی، جو جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے بعد حاصل کی۔‘‘

’’دوسرا معجزہ 1949ء میں مغربی جرمنی پر مشتمل وفاقی جمہوریہ جرمنی کا قیام تھا، جو ایک سیاسی معجزہ تھا۔ یہ ریاست دنیا کی مضبوط ترین اور مستحکم ترین جمہوریتوں میں سے ایک ثابت ہوئی اور اس کی یہ حیثیت دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوئی۔ شروع میں وفاقی جمہوریہ جرمنی کی اس سیاسی کامیابی سے متعلق کوئی پیش گوئی ممکن نہیں تھی، خاص طور پر ماضی میں ’تیسری رائش‘ اور اس سے قبل وائیمار ریپبلک کی ناکامی سے جڑے تاریخی واقعات کی وجہ سے۔‘‘

’’تیسری اور اہم ترین بات یہ حقیقت ہے کہ جدید جرمنی نے اپنے ماضی کے تاریک ترین دور کا سامنا کیسے کیا؟ لیکن یہ کام بھی یکدم نہیں ہوا تھا۔ اس کے لیے عشروں تک محنت کی گئی تھی اور جرمن قوم نے خود اپنے ماضی میں جھانک کر دیکھا کہ اس نے کہاں کہاں کیا کچھ غلط کیا تھا۔ ایک نئی، جمہوری اور بہت انسان دوست سیاسی شناخت کے تعین کا یہ عمل بہت تکلیف دہ بھی تھا اور اپنے ہی ماضی کا سامنا کرتے ہوئے جرمنوں نے بڑی ہمت اور اخلاقی حوصلے کا ثبوت دیا تھا۔‘‘

اپنے اس انٹرویو میں اسٹیفن گرین نے ایک بہت اہم بات یہ بھی کہی کہ جرمنی کا موجودہ کردار دراصل پوری انسانیت کے لیے ایک ماڈل ہے۔ مثلاﹰ صرف جاپان اور روس کے لیے ہی نہیں بلکہ آئرلینڈ کی تاریخ کے حوالے سے برطانیہ کے لیے بھی اور الجزائر میں فرانس کے ماضی کے حوالے سے پیرس کے لیے بھی۔

اس سوال کے جواب میں کہ وہ جرمنی اور جرمن عوام کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں، اسٹیفن گرین نے پاؤلا روئزلر کو بتایا، ’’جرمنی کا جمہوریت پر یقین زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک مضبوط ہے۔ یورپ اور جرمنی میں مہاجرین کے بحران کی وجہ سے کچھ کشیدگی اور کھچاؤ دیکھنے میں آئے ہیں لیکن جرمن قوم نے جس طرح اس بحران کا سامنا کیا، اس کی وجہ سے جرمنی اور جرمن دونوں ہی اپنا سر فخر سے بلند کر کے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے وہی کچھ کیا، جو درست تھا۔ 2015ء میں تارکین وطن اور مہاجرین کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران میں میرے اپنے وطن برطانیہ نے جس کم دلی اور پابندیوں کی سوچ کا مظاہرہ کیا، اس کے باعث دراصل میں اپنے برطانوی ہونے پر شرمندہ بھی ہوں۔‘‘

اسٹیفن گرین نے اپنے اس انٹرویو کے آخر میں یہ امید بھی ظاہر کی کہ جرمنی آئندہ بھی اپنی قیادت میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔ ’’یہی وہ سوچ ہے جس کی موجودہ یورپ کو ضرورت ہے۔ ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ۔‘‘

پاؤلا روئزلر / م م / ش ح

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں