1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سعودی عرب کو مزید چھ ماہ تک اسلحہ برآمد نہیں کرے گا

29 مارچ 2019

جرمنی کی جانب سے سعودی عرب کو اسلحے کی برآمدات پر عائد پابندی کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب یہ پابندی مزید چھ ماہ کے لیے بڑھا دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3FrnN
Sturmgewehr HK 433 des Waffenhersteller Heckler & Koch
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اسٹیفان زائبرٹ نے جمعرات 28 مارچ کی شام بتایا کہ اب سعودی عرب کو اسلحےکی فروخت کے موضوع پر 30 ستمبر 2019ء کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران ریاض کو اسلحہ برآمد کرنے کے حوالے سے کوئی بھی درخواست  منظور نہیں کی جائے گی۔

گزشتہ روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی صدارت میں کابینہ کا ایک اجلاس ہوا اور اس دوران جرمن اسلحے کی فروخت کے حوالے سے پالیسی پر غور کیا گیا۔ اسی کے بعد یہ اعلان سامنے آیا۔

Kampfpanzer vom Typ Leopard 2 A7
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Schulze

برلن حکومت کی طرف سے سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں اور عسکری ساز و سامان کی فروخت اور ترسیل پر یہ پابندی گزشتہ برس سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عائد کی گئی تھی۔

 خاشقجی کو  دو اکتوبر 2018ء کو ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا تھا۔ ریاض حکومت کے ناقد یہ صحافی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے بھی کالم لکھتے تھے۔ اس واقعے کی دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی تھی۔

فرانس اور برطانیہ کی تنقید

سعودی عرب کو اسلحے کی برآمدات پر پابندی کے موضوع پر میرکل کی مخلوط حکومت کی رائے بھی منقسم ہے جبکہ اس حوالے سے فرانس اور برطانیہ نے بھی برلن حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ ان دونوں ممالک کا موقف ہے کہ سعودی عرب کو اسلحے کی ترسیل منجمد کرنے سے دیگر ممالک کے اُن اسلحہ ساز اداروں کی فروخت بھی متاثر ہوئی ہے، جو اپنے دفاعی ساز و سامان میں جرمن پرزے استعمال کرتے تھے۔

جرمنی میں تعینات فرانسیسی سفیر نے اسی ہفتے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جرمنی کی ہتھیاروں کے فروخت اور لائسنسنگ سے متعلق ضوابط سے دو طرفہ دفاعی منصوبوں کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب جرمنی نے فرانس اور برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سعودی عرب کو فراہم کیا جانے والا اسلحہ و ہتھیار یمن کی جنگ میں استعمال نہ کیے جائیں۔

آئیڈیاز 2018 میں جرمنی سمیت کئی ممالک کی کمپنیاں شریک