1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی، مشتبہ دہشت گرد جابر البقر گرفتار

10 اکتوبر 2016

جرمن پولیس نے مشتبہ دہشت گرد جابر البقرکوگرفتار کر لیا ہے۔ مشرقی جرمن ریاست سیکسنی کی پولیس نے آج پیر کی صبح ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ جابر البقر کو رات گئے لائپزگ میں مارے جانے والے ایک چھاپے کے دوران حراست میں لیا گیا۔

https://p.dw.com/p/2R3uc
Deutschland Syrer nach Sprengstoffund in Chemnitz gesucht
تصویر: picture-alliance/dpa/Polizei Sachsen

بائیس سالہ شامی جابر البقر  ہفتے کے روز سے مفرور تھا۔ پولیس نے ٹویٹ میں صرف جابر کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔ اس پر ایک دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔ پولیس نے مشرقی جرمن شہر کیمنِٹس میں البقر کے گھر سے کئی سو گرام بارودی مواد بھی قبضے میں لے لیا۔ اس کے بعد سے حکام نے اس کی تلاش شروع کر دی تھی اور ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں اور دیگر اہم مقامات پر سکیورٹی بھی بڑھا دی گئی تھی۔ شبہ ہے کہ جابر البقر کے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ بھی روابط ہیں۔

Polizeieinsatz in Chemnitz
جابر البقر دراصل گزشتہ برس ہی بطور مہاجر جرمنی آیا تھاتصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt

ایک تحقیقاتی ٹیم کے ترجمان کے مطابق جابر البقر دراصل گزشتہ برس ہی بطور مہاجر جرمنی آیا تھا۔ جرمن روزنامے ڈیئر اشپیگل کی ایک رپورٹ کے مطابق جابر البقر اٹھارہ فروری سن دو ہزار پندرہ کو جرمنی داخل ہوا تھا، جس کے دو ہفتے بعد ہی اس نے اپنی پناہ کی درخواست جمع کرا دی تھی، جو اس سال جون میں منظور بھی کر لی گئی تھی۔ پولیس کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جابر البقر دھماکا خیز مواد بنانے کے لیے آن لائن معلومات حاصل کر رہا تھا جبکہ اس نے حال ہی میں بم بنانے کی خاطر مواد بھی خریدا تھا۔

خبر رساں ادارے اے یف پی نے پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جب پولیس کمانڈوز نے مشرقی شہر کیمنِٹس میں جابر البقر کی گرفتاری کے لیے اس کے گھر پر چھاپہ مارا، تو یہ شامی مہاجر بال بال بچ گیا۔ پولیس نے جب دیکھا کہ اس اپارٹمنٹ سے کوئی شخص نکل کر جا رہا ہے تو اسے روکنے کی خاطر کمانڈوز نے انتباہی طور پر فائرنگ بھی کی تھی، لیکن البقر وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اتوار کے دن پولیس نے بتایا تھا کہ جابر البقر کے فلیٹ میں اس کے ساتھ رہنے والے ایک اور شامی شہری کو حراست میں لیا گیا تھا، جس سے پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے۔