1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں مہاجرين کو ملک بدری سے قبل جيل ميں رکھنے کی تجويز

20 دسمبر 2018

يورپی عدالت برائے انصاف نے چار برس قبل يہ فيصلہ سنايا تھا کہ مہاجرين کو جيلوں ميں رکھنا قوانين کی خلاف ورزی ہے تاہم اب جرمن رياستوں کے سربراہان ملک بدری سے قبل مہاجرين کو جيلوں ميں رکھنے کے حامی ہيں۔

https://p.dw.com/p/3APzv
Niederlande -  Flüchtlinge kommen in einem ehemaligen Gefängnis in Amsterdam unter
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen

جرمن رياستيں ملک بدری کے حقدار قرار ديے جانے والے مہاجرين کو جيلوں ميں رکھنے کی حامی ہيں۔ اس بارے ميں رپورٹ جرمن اخبار ’ڈی ويلٹ‘ ميں جمعرات کے روز چھپی، جس ميں اسی ماہ رياستی سطح کے ايک اجلاس کا حوالہ ديا گيا تھا۔ ملک بدری کے ليے مختص مہاجرين کو جيلوں ميں رکھنے کے ليے ايک قرارداد زير غور ہے جس ميں قوانين کی نرمی کا تذکرہ کيا گيا ہے تاکہ اس عمل کی راہ ميں رکاوٹيں دور ہو سکيں۔

سن 2014 ميں يورپی عدالت برائے انصاف نے يہ فيصلہ سنايا تھا کہ ملک بدری کے ليے چنے جانے والے مہاجرين کو عام جيلوں يا قيد خانوں ميں رکھنا، يورپی قوانين کی خلاف ورزی ہے۔ اس فيصلے کے بعد سے ايسے مہاجرين کو خصوصی مراکز ميں رکھا جا رہا ہے۔

جرمنی ميں وفاقی پوليس کی ٹريڈ يونين کے سربراہ ارنسٹ والٹر نے ’ڈی ويلٹ‘ سے بات چيت ميں جرمن رياستوں کی جانب سے ملک بدری کے حقدار قرار ديے جانے والے مہاجرين کو جيلوں ميں رکھے جانے کی تجويز کا خير مقدم کيا ہے۔ ان کے بقول عموماً صرف انہی لوگوں کو ملک بدر کيا جا سکتا ہے، جو حراست ميں ہوں۔ والٹر کے مطابق اکثر اوقات مہاجرين ملک بدری سے بچنے کے ليے کچھ مدت کے ليے غائب ہو جاتے ہيں۔ انہوں نے اس مجوزہ عمل کو لازمی بھی قرار ديا۔

جرمنی ميں اس وقت مہاجرين کو ملک بدری سے قبل حراست ميں رکھے جانے کے ليے مختص مراکز ميں مجموعی طور پر پانچ سو افراد کی گنجائش ہے، جس کا مطلب يہ ہے کہ ملک بدری کے حقدار قرار ديے جانے والے تمام افراد کو حراست ميں نہيں رکھا جا سکتا۔ وفاقی پوليس کی ٹريڈ يونين کے سربراہ ارنسٹ والٹر کے مطابق چونکہ نئے مراکز کی تعمير ميں وقت لگ رہا ہے، اسی ليے فوری طور پر وہ سولہ جرمن رياستوں کے وزرائے اعظم کے اس مشورے پر عملدرآمد کے حق ميں ہيں۔

سياسی پناہ کے متلاشی افراد کو ان کی درخواستوں پر کارروائی کے دوران خصوصی پرمٹ جاری کيے جاتے ہيں۔ اگر ان کی درخواست مسترد ہو جائے اور انہيں کسی بھی طرح کی پناہ نہ فراہم کی جائے، تو انہيں رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کے ليے حد سے حد چھ ماہ کی مہلت دی جاتی ہے۔ اگر وہ مقررہ وقت تک خود اپنےوطن واپس نہيں لوٹتے، تو حکام انہيں جبری طور پر ملک بدر کرنے کا اختيار رکھتے ہيں۔ ان مہاجرين کو بھی ملک بدر کيا جا سکتا ہے، جن کے ’ريزيڈنس پرمٹس‘ کی مدت ميں توسيع نہ کی جائی اور انہيں بھی جو کسی جرم ميں ملوث پائے جائيں۔ رواں سال کے پہلے چھ ماہ ميں جرمنی ميں تقريباً چوبيس ہزار افراد کو ملک بدری کے احکامات جاری کيے گئے، جبکہ صرف گيارہ ہزار کو کاميابی کے ساتھ ملک بدر کيا جا سکا۔

ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں