1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: مہاجرین کی کثیر تعداد سماجی انضمام میں رکاوٹ

17 نومبر 2017

گزشتہ دو برسوں میں جرمنی میں تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے ملک میں ان کے سماجی انضمام کی کوششیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ مخلوط حکومت کے قیام کے لیے جاری مذاکرات میں یہ مسئلہ بھی زیر بحث ہے۔

https://p.dw.com/p/2nqFo
Deutschland Frankfurt a.M. Werkstatt für Frauen Flüchtlinge Bild 1
تصویر: DW/N. Müller

دو برس قبل یورپ میں مہاجرین کے بحران کے پیش نظر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جرمنی کی سرحدیں کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انسانی ہمدردی پر مبنی اس پالیسی کی وجہ سے دو سال کے دوران دس لاکھ سے زائد پناہ کے متلاشی افراد جرمنی پہنچے تھے۔ 

جرمن انتخابات کے بعد نئی مخلوط حکومت کے قیام کے لیے تین سیاسی جماعتوں، کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی، ایف ڈی پی اور گرین پارٹی کے مابین جاری مذاکرات فی الحال کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔ ان مذاکرات میں جرمنی میں تارکین وطن کی تعداد کی حد مقرر کیے جانے پر بھی بحث کی جا رہی ہے۔

میرکل کی قدامت پسند سیاسی جماعت نے ان مذاکرات میں یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ مہاجرین اور ان کے خاندانوں کو جرمنی آنے کی اجازت پر پابندی کی موجودہ مدت (مارچ 2018ء ) میں مزید توسیع کی جائے۔

Deutschland Medizinische Versorgung Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

مہاجرت اور سماجی انضمام کے امور کے کئی جرمن ماہرین اور سماجی تنظیموں کا یہ کہنا ہے کہ ملک میں موجود تارکین وطن اور مہاجرین کے سماجی انضمام کو یقینی بنانے کے لیے ان کے اہل خانہ کی جرمنی آمد کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔

مہاجرین کے امور پر نظر رکھنے والے ایک ماہر ہیربرٹ برؤکر کے مطابق سی ڈیی یو کی جانب سے پیش کردہ اس تجویز سے مہاجرین کے سماجی انضمام کی کوششوں کو مزید نقصان پہنچے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے پر کیے گئے مختلف جائزوں کے نتائج کے مطابق اپنے اہل خانہ سے جدا اور تنہا جرمنی میں رہائش پذیر مہاجرین اور تارکین وطن جرمنی میں اپنی زندگی سے مطمئن نہیں رہ پاتے۔ برؤکر کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر ایسے مہاجرین اور تارکین وطن ’ڈپریشن اور چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں‘۔