1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: ڈی پورٹ کیے جانے سے پہلے  نصف سے زائد مہاجرین لاپتہ

16 جولائی 2018

وفاقی جرمن پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس مہاجرین کو ملک بدر کیے جانے کے احکامات میں سترہ فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم دوسری جانب ملک بدریوں میں چار فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/31VjO
Deutschland Afghanistan Migration Mobiles Theater Statues laugh!
تصویر: DW/M. Hassani

جرمن اخبار’ ویلٹ اَم زونٹاگ‘ میں شائع ہوئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ  رواں برس کے پہلے پانچ ماہ میں نصف سے زائد ملک بدریوں کے احکامات پر اس لیے عمل نہ ہو سکا کیونکہ ڈی پورٹ کیے جانے والے افراد کو تلاش نہیں کیا جا سکا۔

جرمن وفاقی پولیس کی ایک داخلی رپورٹ کے مطابق بھی اس سال کے آغاز سے لے کر مئی کے مہینے تک چوبیس ہزار مہاجرین کو جرمنی بدر کیے جانے کے احکامات تھے تاہم محض 11،000 مہاجرین ہی کو ڈی پورٹ کیا جا سکا۔

مجموعی طور پر 12،800 ملک بدریاں پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں جن میں 11،500 ایسے افراد تھے جو ملک بدر کیے جانے کے روز اپنے اندراج شدہ ایڈریس پر موجود نہیں تھے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کتنے افراد مستقل طور پر جرمنی بدر ہونے کے خوف سے روپوش ہیں۔

Deutschland Ellwangen - Polizisten nehmen Flüchtling fest
تصویر: Getty Images/T. Niedermueller

اخبار مزید لکھتا ہے کہ باقی ماندہ 1300 ملک بدریاں اس لیے مکمل نہ ہو سکیں کیونکہ تارک وطن  افراد کو واپس بھیجنےکی کوششیں مختلف وجوہات کی بنا پر نامکمل چھوڑنی پڑیں۔ ان میں سے ایک بڑی وجہ مہاجرین کا ملک بدری کے خلاف مزاحمت کرنا بھی تھا۔

رپورٹ کے مطابق گنی اور نائیجیریا کے پناہ گزینوں کی جانب سے تقریباﹰ ساٹھ فیصد مزاحمت کے کیسز زیادہ سامنے آئے۔ صومالیہ کے تارکین وطن کی جانب سے ڈی پورٹ کیے جانے کے وقت یہ مزاحمت پچاس فیصد سے زائد جبکہ شامی مہاجرین کی جانب سے چالیس فیصد دیکھی گئی۔

اپنے آبائی ممالک واپس بھیجے جانے کے خلاف مزاحمت کی یہ شرح سیرا لیون، گیمبیا، مراکش، عراق اور ایریٹیریا کے مہاجرین میں تیس فیصد تک پائی گئی ہے۔

اس تناظر میں جرمنی کی وفاقی پولیس کے چیئرمین ارنسٹ والٹر کا کہنا ہے کہ ریاست اور مقامی حکام کو مزید بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایس پی ڈی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے لیبر نے صوبوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظاہراﹰ ایسے مہاجرین کی ملک بدریاں زیادہ ہو رہی ہیں جو جرمن سوسائٹی میں بہتر طور سے انضمام کر رہے تھے۔

والٹر نے مزید کہا کہ یہ نہ صرف مہاجرین کے لیے بُرا ہے بلکہ اُن جرمن کمپنیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے جنہوں نے مہاجرین کو ملازمتیں دینے میں اپنا وقت اور سرمایہ لگایا ہے۔

ص ح / ع ح / نیوز ایجنسی