1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کے نئے افغان مینڈیٹ کی منظوری

26 فروری 2010

بین الاقوامی دستوں کی تعداد میں اضافہ گزشتہ ماہ لندن منعقدہ کانفرنس میں طے کی گئی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس کا مقصد افغان سیکیورٹی دستوں کو جلد از جلد اس قابل بنانا ہے کہ وہ سلامتی کی ذمہ داریاں اپنے ہاتھوں میں لے سکیں۔

https://p.dw.com/p/MDZ6
نئے افغان مینڈیٹ کے حق میں 586 ميں سے 429 ووٹ پڑےتصویر: AP

جرمن پارليمان نے افغانستان ميں جرمن فوجیوں کی تعداد اور اُن کی تعيناتی کی مدت ميں اضافے کی بھاری اکثريت سے منظوری دے دی۔ پارليمانی بحث کے دوران ايک ناخوشگوار واقعہ اُس وقت پيش آيا، جب بائيں بازو کی جماعت دی لِنکے کے اراکين نے ایوان ميں ايسے بينر بلند کئے، جن پر پچھلے سال قندوز ميں ایک جرمن فوجی افسر کی درخواست پر نیٹو کی فضائی بمباری میں ہلاک ہونے والے افغان شہريوں کے نام درج تھے۔ اس پراسپيکر نے ان اراکين کو ایوان سے نکال ديا۔

جرمن پارليمان نے افغانستان میں ملکی فوج کے نئے مینڈیٹ کی منظوری بہت بڑی اکثریت سے دی۔ 586 اراکين ميں سے 429 نے قرارداد کے حق ميں اور111 نے اس کے خلاف ووٹ دئے۔ 49 اراکين نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔ اس طرح اب افغانستان ميں جرمن دستوں کی تعداد 4500 سے بڑھا کر5350 کر دی جائے گی اور اُن کی وہاں تعيناتی کی مدت بھی اب فروری سن 2011 تک بڑھا دی گئی ہے۔

نئے مینڈیٹ کے مطابق افغان فوج اور پوليس کو تربيت دينے والے جرمن فوجيوں کی تعداد 280 سے بڑھا کر1400 کر دی گئی ہے۔ افغانستان کے لئے جرمن ترقياتی امداد بھی تقريباً دوگنا ہو گئی ہے۔ پارلیمانی بحث کے دوران اپوزيشن جماعت SPD نے قرارداد کی حمايت کی جبکہ گرين پارٹی کے پارليمانی دھڑے کی خاتون سربراہ Künast نے اس پر سخت تنقيد کی۔

ایوان ميں بحث کے دوران دی لِنکے نامی لیفٹ پارٹی کی سیاستدان کرسٹينے بُوخ ہولس نے کہا کہ افغانستان شہر قندوزميں بمباری ميں ہلاک ہونے والے شہريوں کے لواحقين سے ملاقات کے بعد ان پر بالکل واضح ہو گيا کہ جرمنی افغانستان ميں عام شہريوں کے خلاف جنگ ميں ملوث ہے۔

Linke Linksfraktion Bundestag Bundeswehr Afghanistan Kunduz Protestaktion Protest
بائین بازو کی جماعت دی لنکے نے قندوز پر بمباری کے مسئلے پر ایوان سے باہر چلے گئے تھےتصویر: picture-alliance/dpa

بُوخ ہولس قندوز ميں پچھلے سال ستمبر ميں اس فضائی بمباری کا حوالہ دے رہی تھيں، جس ميں ايک جرمن کرنل کی ہدايت پر طالبان کے قبضے ميں آ جانے والے دو آئل ٹينکروں پربمباری کی گئی تھی۔ اس بمباری ميں 142 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے تھے جن ميں بہت سے عام شہری تھے۔

برلن میں وفاقی پارلیمان ميں بحث کے دوران جمعہ کو ایک ناخوشگوار واقعہ اُس وقت پيش آيا جب لیفٹ پارٹی دی لنکے پارٹی کے تقريباً سبھی اراکين نے ايسے بينر بلند کئے جن پر قندوز ميں بمباری ميں ہلاک ہونے والے افغان شہريوں کے نام درج تھے۔ پارليمنٹ کے اسپيکر نوربرٹ لامرٹ نے اسے پارليمانی ضوابط کی خلاف ورزی قرار ديتے ہوئے بائیں بازو کے اراکين سے یہ بينر سميٹ لينے کا مطالبہ کيا۔ لیکن جن ارکان نے اسپیکر کی ہدایت پر عمل نہ کیا، انہیں ایوان سے نکال ديا گیا۔ بعد میں دی لنکے کے تمام اراکين ایوان سے باہر چلے گئے۔ پھرایوان ميں منظور کی گئی ایک فوری قرارداد کے مطابق اُنہيں رائے شماری ميں شرکت کی اجازت دے دی گئی۔

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کے پارليمانی قائدين اُپرمن اور فن ايسن نے دی لِنکے کے اراکين کو ایوان سے نکال دينے کے فيصلے کو درست قرار ديا۔ اُپرمن نے کہا کہ پارليمنٹ مباحثے کی جگہ ہے، مظاہرے کی نہيں۔ دی لِنکے کا کہنا ہے کہ یہ پارٹی ستمبر کی بمباری ميں ہلاک ہونے والے افغان شہريوں کی ياد دلانا چاہتی تھی کيونکہ پارليمنٹ نے اُن کی ياد ميں کسی بھی قسم کے اقدام سے انکار کر ديا تھا۔

اپوزيشن کی سب سے بڑی جماعت ايس پی ڈی کے سربراہ زیگمار گابرئیل نے لیفٹ پارٹی کی طرف سے افغانستان ميں جرمن فوج کی تعيناتی کے خلاف احتجاج پر تنقيد کی اور کہا کہ مخالفين کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا پورا حق ہے، ليکن ايسا دلائل کی شکل ميں ہونا چاہئے۔ جرمن وزير دفاع کارل تھيوڈور سُو گٹن برگ نے افغانستان ميں جرمن فوج کے نئے مینڈیٹ کی پارليمانی منظوری کا خير مقدم کيا ہے۔

رپورٹ : شہاب احمد صدیقی

ادارت : مقبول ملک