1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: گٹھیا کےشکار بچوں کے لیے خصوصی کلینک

Maqbool Malik23 اکتوبر 2012

گٹھیا جیسے مرض میں مبتلا بچے بڑی ہمت وحوصلے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ کہنا ہے جرمنی میں گٹھیا کے مریض بچوں اور نوجوانوں کے سب سے بڑے اور واحد مرکز کے ڈائریکٹر اور جرمن پروفیسر یوہانس پیٹر ہاس کا۔

https://p.dw.com/p/16VF3
تصویر: Kinderklinik Garmisch-Partenkirchen

جنوبی جرمنی کے ایک پُر فضا مقام گارمش پارٹن کِرشن میں 60 سال قبل یہ اسپیشل کلینک قائم کیا گیا تھا۔ اب تک اپنی نوعیت کا یہ واحد کلینک ہے جہاں گٹھیا کے مرض کے شکار بچوں اور نوجوانوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ تاہم اس مرکز میں زیر علاج مریضوں کو محض گٹھیا کے علاج کے ماہرین ہی نہیں دیکھتے بلکہ ماہرین نفسیات، معاشرتی امور کے مشیر، جسمانی تکالیف کا علاج کرنے والے معالج اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے ماہرین بھی ان مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق جرمنی میں قریب 40 ہزار بچے اور نوجوان جوڑوں کی بیماری Rheumatism یا شعالیت، جسے عام فہم زبان میں گٹھیا بھی کہا جاتا ہے، کی مختلف اقسام کا شکار ہیں۔ پروفیسر یوہانس پیٹر ہاس بچوں اور نوجوانوں میں پائی جانے والی شعالیت کی سب سے عام اقسام کے بارے میں کہتے ہیں ’’چھوٹے بچوں میں اس عارضے کی کم از کم چھ مختلف اقسام سب سے عام ہیں۔ ان میں سے ایک قسم سن بلوغت تک پوری طرح سے حملہ آور ہوتی ہے۔ اسے Oligoarthritis یا سوزش مفصل بھی کہتے ہیں۔ یہ عام طور سے بہت کم عمری سے شروع ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ جوڑوں کو مکمل طور پر ناقص بنا دیتی ہے۔ اس کا بروقت علاج ضروری ہے۔ اگر کوئی بچہ بظاہر اس بیماری سے تیزی سے نجات پاتا نظر آئے تو بھی اس کا علاج مکمل طور پر کراتے رہنا چاہیے۔ بصورت دیگر یہ بیماری بلوغت کی عمر میں شدت اختیار کر جاتی ہے۔ اگر بالغ ہونے تک بچوں میں اس بیماری کے آثار ختم ہو جائیں، تب جا کر کہیں دو تہائی مریضوں کی صحتیابی کی امید کی جا سکتی ہے‘‘۔

Rheumakind Fabio Wagner
فابیو کے دائیں گھٹنے میں سوجن کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنے نارمل سائز سے دگنا نظر آنے لگا تھاتصویر: Frank Wagner

آرتھرائٹس یا سوزش مفصل کی بیماری بچوں کے گھٹنوں، پیروں اور ہاتھوں کے جوڑوں پر سب سے زیادہ حملہ کرتی ہے۔ طبی ماہرین اب تک اس امر کا اندازہ نہیں لگا سکے کہ اس شعالیت کی وجہ کیا ہے۔ یہ بیماری کیوں اور کہاں سے جنم لیتی ہے۔ تاہم ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ عارضہ موروثی ہو سکتا ہے لیکن اس کا شمار روایتی موروثی بیماریوں میں نہیں ہوتا۔

پروفیسر ڈاکٹر یوہانس پیٹر ہاس کے بقول یہ مرض بچوں کی بینائی پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، جیسا کہ ان کے ایک مریض Fabio Wagner کے ساتھ بھی ہوا۔ فابیو جب تین سال کا تھا، تب اس کے اس بیماری کا شکار ہونے کی تشخیص ہوئی تھی۔ اُس کے دائیں گھٹنے میں سوجن کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنے نارمل سائز سے دگنا نظر آنے لگا تھا۔ فابیو واگنر کے والد کا کہنا ہے کہ ایک عرصے تک ڈاکٹروں کی کوششیں جاری رہنے کے بعد اُن کے بیٹے کے جسم میں شعالیت کی تشخیص ہوئی تھی اور یہ بات خاندان میں ہر کسی کے لیے ایک شدید دھچکا تھی۔

Rheuma bei Kindern
چھوٹے بچوں میں اس عارضے کی کم از کم چھ مختلف اقسام سب سے عام ہیںتصویر: Kinderklinik Garmisch-Partenkirchen

فابیو واگنر کہتا ہے ’’میرے کندھوں، پیروں، ہاتھوں کے جوڑوں، بتیسی، دونوں گھٹنوں، انگوٹھوں اور کولہے کے جوڑوں میں Rheumatism یا شعالیت پائی جاتی ہے‘‘۔

فابیواب 15 سال کا ہے۔ اسے کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے۔ پروفیسر یوہانس پیٹر ہاس کے مطابق زیادہ تر بچوں اور نوجوانوں میں یہ مرض جوڑوں کے درد کی شکل میں ہی سامنے آتا ہے اور مرحلہ وار بڑھتا جاتا ہے۔ یہ نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے، اس لیے سب سے پہلے درد کے خاتمے یا اس میں کمی کا مؤثر بندوبست کیا جانا چاہیے۔ اُس کے بعد اس عارضے کے علاج کے بنیادی نکات میں جسمانی ورزش اور جوڑوں کو مسلسل حرکت میں رکھنا شامل ہوتا ہے۔

G. Heise, km / A. Sten-Ziemons, mm