1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جعلی اکاؤنٹس: فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان بھی محفوظ نہیں

شکور رحیم، اسلام آباد2 دسمبر 2014

پاکستان میں بڑھتے ہوئے سائبر کرائم سے ملک کی مشہور سیاسی اور سماجی شخصیات کے ساتھ ساتھ فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اعلیٰ عہدیداران بھی محفوظ نہیں۔

https://p.dw.com/p/1DyCd
Social Media Spyroom Illustration
تصویر: Fotolia/boscorelli

اس ضمن میں بری فوج اور آئی ایس آئی نے باقاعدہ طور پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (ایم او آئی ٹی) اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو فیس بک پر دونوں اداروں کے سربراہان کے جعلی اکاؤنٹس کی شکایت کی ہے۔

پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران کے مطابق اس بارے میں شکایات موصول ہونے کے بعد ان کے تدارک کے لیے ضروری کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر فیس بک انتظامیہ شکایت کیے جانے پر ایسے اکاؤنٹس اور انٹرنیٹ پیجز بند کرنے میں تعاون کرتی ہے تاہم بقول ان کے اصل مسئلہ ان اکاؤنٹس کا دوبارہ کھولا جانا ہے۔

خیال رہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئیٹر پر مشہور شخصیات کے نام پر بنائے گئے جعلی اکاؤنٹس کی بھر مار ہے۔ تاہم اصل مسئلہ فیس بک اکاؤنٹس کا ہے جہاں پر ان شخصیات کے حوالے سے سٹیٹس کو اتنا اپ ڈیٹ رکھا جاتا ہے کہ عام انٹرنیٹ صارفین تو ایک جانب سوشل میڈیا کا تندہی سے استعمال کرنے والے افراد بھی غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چند ماہ قبل اردو زبان کے ایک معروف شاعر کا بیٹا اغوا ہونے کے بعد تاوان ادا کر کہ بازیاب ہوا تو وہ ملاقات کے لیے آنے والوں سے موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تعریف کرتے نہ تھکتے۔ کسی نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ"جنرل راحیل شریف میرے فیس بک فرینڈ ہیں اور انہوں نے اپنے سٹاف کے ساتھ مل کر میرے بیٹے کی بازیابی کے لیے دعا بھی کی تھی۔" تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اکاؤنٹ بھی جعلی تھا۔

پاکستانی فوج کے ایک ترجمان کے مطابق فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کے علاوہ دیگر تمام اعلیٰ حاضر فوجی افسران کے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ جعلی ہیں۔

پاکستان میں سائبر کرائم سے نمٹنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے "سائبر الرٹ سسٹم" کے نام سے ایک نیا نظام بھی متعارف کرایا ہے۔ منگل کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم یاسین فاروق نے کہا کہ رواں سال انٹرنیٹ کے ذریعے فراڈ کر کہ شہریوں سے مجموعی طور پر تیرہ کروڑ چون لاکھ روپے ہتھیائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر مقدمات میں لوگوں کو نوکریوں کے جھانسے اور انعامی رقوم کا لالچ دے کر لوٹا گیا۔ یاسین فاروق نے بتایا، ’’ہمارے پاس اس سال 903 اس طرح کی شکایات آئی تھیں۔ جن میں لوگوں کو اس طرح پھنسایا گیا ہے۔ اس میں ہم نے جو اوسط نکالی ہے وہ فی کس ایک شکایت کنندہ کو ایک لاکھ پچیسں ہزار روپے نقصان ہوا ہے اور سب سے بڑی رقم جو ایک شخص سے ایس ایم ایس کے ذریعے فراڈ کر کہ ہتھیائی گئی وہ ایک لاکھ بانوے کروڑ روپے ہے۔"

بعد ازاں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے یاسین فاروق نے کہا کہ سوشل میڈیا خصوصا فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بعض مرتبہ فیس بک کی انتظامیہ بھی شکایت کے ازالے میں مدد کرتی ہے تاہم بعض اوقات تعاون نہیں بھی ملتا جس سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز (آئی ایس پی) ایسوسی ایشن کے کنوینر وہاج سراج کا کہنا ہے کہ اس بارے میں لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی مہم اورانٹرنیٹ کے ذریعے جرائم کے خاتمے کے لیے ایک مؤثر نظام بنایا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا،"درمیانے درجے کے شہروں،اضلاع، قصبوں تحصیل کی سطح تک اس نظام کو وسعت دینے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ جو ہماری ریگولر پولیس ہے ان کو بھی یہ مہارت دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس طرح کے جرائم کا سامنا کر سکیں‘‘۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق چند ماہ قبل گرفتار کیے گئے نائیجیریا کے ایک شہری کو پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے فراڈ کرنے پر بارہ سال قید کی سزا دلوائی گئی ہے۔