1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوب مشرقی ایشیا میں القاعدہ کے رابطے کمزور پڑتے ہوئے

19 فروری 2012

بالی بم حملوں کے ملزم عمر پاٹک سے کی گئی تفتیش سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے جنوب مشرقی ایشیا میں شدت پسند تنظیموں سے رابطے کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/145ZG
تصویر: AP

یہ بات امریکی خبر ایجنسی اے پی نے جکارتہ سے ملنے والی رپورٹوں میں عمر پاٹک سے کی گئی چھان بین کی ویڈیو ریکارڈنگ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ایک خصوصی تجزیے میں بتائی ہے۔ اس تفتیش کی اے پی کو ملنے والی ویڈیو ریکارڈنگ کے مطابق انڈونیشیا میں بالی بم حملوں میں استعمال ہونے والے بم تیار کرنے والے ملزم عمر پاٹک نے حکام کو بتایا کہ وہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد گیا تھا مگر اسے علم نہیں تھا کہ القاعدہ کا رہنما اسامہ بن لادن بھی وہیں روپوش تھا۔

عمر پاٹک کو گزشتہ برس جنوری میں ایبٹ آباد سے گرفتار کیا گیا تھا اور پاکستان کے اسی شہر میں پچھلے سال مئی میں اسامہ بن لادن امریکی فوجی کمانڈوز کی ایک خفیہ کارروئی میں مارا گیا تھا۔ عمر پاٹک کو اس کی گرفتاری کے کئی مہینے بعد پاکستانی حکام نے ملک بدر کر کے انڈونیشیا کے حوالے کر دیا تھا جہاں ابھی حال ہی میں اس کے خلاف مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی تھی۔

Krieg in Afghanistan neu
تصویر: AP

بالی کے انڈونیشی جزیرے پر متعدد نائٹ کلبوں میں سن دو ہزار دو میں یکے بعد دیگرے کیے گئے کئی بم حملوں میں مجموعی طور پر دو سو دو افراد مارے گئے تھے جن میں بہت سے غیر ملکی سیاح بھی شامل تھے۔

خبر ایجنسی اے پی نے آج اتوار کو جکارتہ سے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھا کہ جماعتہ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والا انتہا پسند رہنما عمر پاٹک افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کے خلاف طالبان اور القاعدہ کی مسلح مزاحمت میں حصہ لینے کے لیے وہاں جانا چاہتا تھا۔ مگر وہ اس وجہ سے بہت ناامید تھا کہ اسے اپنے اور اپنی تنظیم جماعتہ اسلامیہ کے پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے بحال کرنے میں مسلسل مشکلات پیش آ رہی تھیں۔

Afghanistan Taliban
تصویر: AP

عمر پاٹک کے بقول وہ اپنے طور پر پاکستان گیا تھا اور وہاں اپنے ایک برسوں پرانے عسکریت پسند رابطہ کار کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنے میں اسے کئی مہینے لگے تھے۔ اے پی کے مطابق اگر عمر پاٹک کا یہ دعویٰ درست ہے، تو یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ القاعدہ کے جنوب مشرقی ایشیا میں دہشت گرد تنظیموں اور تحریکوں کے ساتھ رابطے مسلسل کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔

اے پی کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ اب جماعتہ اسلامیہ کے طویل عرصے تک اس کی سرپرستی کرنے والی القاعدہ تحریک کے ساتھ رابطے زیادہ تر منقطع ہو چکے ہیں۔ اس کا سبب جنوب مشرقی ایشیا میں جماعتہ اسلامیہ اور اس کے سرکردہ ارکان کے خلاف کی جانے والی نتیجہ خیز کارروائیاں ہیں جبکہ پاکستان، افغانستان اور دیگر ملکوں میں القاعدہ کے خاتمے کی فوجی کوششیں بھی جاری ہیں۔

911 HG Bin Laden
اسامہ بن لادنتصویر: DW / AP

اپنے اسی تجزیے میں اے پی نے انٹر نیشنل کرائسز گروپ کے انسداد دہشت گردی سے متعلقہ امور کے ایک ماہر سڈنی جونز کے اس بیان کا حوالہ بھی دیا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں جماعتہ اسلامیہ کے عروج کا دور اگرچہ گزر چکا ہے تاہم یہ بات ابھی بھی نہیں کی جا سکتی کہ اس دہشت گرد تحریک کو ختم کر دیا گیا ہے۔

انسداد دہشت گردی کے ماہرین اور امریکی اور پاکستانی حکام عمر پاٹک کے اس بیان کو کافی حد تک قابل یقین سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی نیا دہشت گرد نیٹ ورک قائم کرنے نہیں بلکہ اپنے طور پر پاکستان گیا تھا۔ اس دوران اسے علم نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن بھی ایبٹ آباد ہی میں کہیں روپوش تھا۔ اس کے علاوہ ایبٹ آباد میں عمر پاٹک کبھی اپنے کمرے سے باہر بھی نہیں نکلا تھا۔ پاٹک اگست دو ہزار دس میں پاکستان گیا تھا اور قریب پانچ ماہ بعد پچھلے سال جنوری میں اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

جنوب مشرقی ایشیا میں جماعتہ اسلامیہ اور القاعدہ کے رابطے اسامہ بن لادن کی موت سے بھی پہلے مبینہ طور پر کتنے کم ہو چکے تھے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پانچ ماہ تک قیام کے دوران بدر اور حیدر نامی جن دو پاکستانی عسکریت پسندوں نے کچھ عرصے کے لیے رہائش اور سفر کے سلسلے میں عمر پاٹک کی مدد کی تھی، ان کے بارے میں پاٹک کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کا تعلق عسکریت پسندوں کے کس گروپ سے ہے۔

عمر پاٹک کو جکارتہ میں اس کے خلاف جاری مقدمے کی سماعت کے اختتام پر سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ بالی بم حملوں کے تین دیگر سرکردہ ملزمان کو پہلے ہی سزائے موت دی جا چکی ہے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: شامل شمس