1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی کوریائی خواتین کی جدوجہد، جہاں سچ بھی جرم ہو سکتا ہے

30 جولائی 2018

جنوبی کوریا میں جب ایک خاتون نے پولیس کو بتایا کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تو الٹا حملہ آور نے ہی اس خاتون کے خلاف الزامات کی بھرمار کر دی۔ اس ملک میں مجرمانہ ہتک عزت کے قوانین کے باعث سچ بولنا بھی ایک مشکل کام ہے۔

https://p.dw.com/p/32J7U
Nordkorea - Pjöngjang 'Kimilsungia' Blumenfestival
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/D. Guttenfelder

جنوبی کوریا میں ایک مبینہ ملزم نے جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کے خلاف اپنے الزامات کی بنیاد ذاتی ساکھ کے تحفظ کے اس ملکی قانون کو بنایا، جس کے تحت اگر کوئی سچ بھی بولے تو لازمی نہیں کہ یوں اپنا دفاع بھی کر سکے۔ متاثرہ خاتون نے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آور نے خود اسی خاتون کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات بھی عائد کر دیے۔ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی اس خاتون کی سکیورٹی کی خاطر اس کی شناخت مخفی رکھی گئی ہے اور اسے صرف اس کے نام کے پہلے حرف ’ڈی‘ سے پکارا جا رہا ہے۔

اس خاتون کے مطابق، ’’کئی ماہ تک میں کچھ کھا پی نہ سکی۔ میں سو نہیں سکتی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ایک ایسے جال میں پھنس گئی ہوں، جس سے نکلنا ممکن نہیں۔‘‘ تاہم بعد ازاں عدالت نے کارروائی کے بعد حملہ آور کا جرم ثابت ہونے پر اسے دو سال کی سزائے قید سنا دی اور ’ڈی‘ پر عائد کیے گئے تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔

جنوبی کوریا میں ایسے قانونی کیس عام سی بات ہیں، جہاں مجرمانہ ہتک عزت کے قانون کے تحت سچ بولنے پر اگر کسی شخص کی سماجی ساکھ کو نقصان پہنچے، تو یہ ایک قابل سزا عمل ہو سکتا ہے۔ اس طرح بالخصوص ریپ کے متعدد کیسوں میں حملہ آور اسی قانون کا سہارا لے کر متاثرہ خواتین کو خاموش کرا دیتے ہیں۔ ان قوانین کے تحت پولیس کو رپورٹ کرنا جرم نہیں تاہم اگر کوئی خاتون سر عام ایسا کوئی الزام عائد کر دے، تو خود اس کے خلاف بھی عدالتی کارروائی شررع کی جا سکتی ہے۔

کوریا میں خواتین وکلاء کی ایسوسی ایشن سے وابستہ سو ہائی جن اس بارے میں کہتی ہیں کہ اس نظام کا خواتین پر انتہائی برا اثر پڑ رہا ہے، ’’کئی حملہ آور کھلے عام متاثرہ خواتین کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ الٹا ان کے خلاف ہی قانونی کارروائی کی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ جنسی زیادتی کا الزام واپس لو، تو ہتک عزت کا مقدمہ ختم کر دیا جائے گا۔‘‘

جنوبی کوریا میں اقتصادی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود پدرسری اقدار نے اس معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اس ملک میں خواتین ملازمین اپنے مرد ساتھیوں کے نسبت کم اجرت لے رہی ہیں اور ساتھ ہی خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر بھی کم ہی فائز کیا جاتا ہے۔ جنوبی کوریا میں خواتین کو قتل کرنے کی شرح بھی کافی زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی کوریا میں خواتین کے قتل کیے جانے کی شرح باون فیصد بنتی ہے، جو بھارت میں ہونے والی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ بھارت میں یہ شرح 41 فیصد ہے، جو دنیا بھر میں خواتین کے لیے سب سے غیر محفوظ ملک شمار کیا جاتا ہے۔

گزشتہ برس #MeToo تحریک کے دوران جہاں دنیا بھر کی خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں یا ہراساں کیے جانے کے واقعات کو کھلے عام رپورٹ کرنا شروع کیا تو یہ تبدیلی جنوبی کوریا میں بھی دیکھی گئی۔ اس تحریک کی بدولت اس ملک کی خواتین نے بھی سوشل میڈیا پر خواتین کے استحصال جیسے حساس موضوع کو نشانہ بنایا۔ ’ڈی‘ اب جنوبی کوریا میں خواتین کے حقوق کی خاطر فعال ہو چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس ملک میں میرے جیسی بہت سی خواتین ہیں۔ لیکن اب کوریائی خواتین خاموش نہیں رہیں گی اور اپنے حقوق کی جنگ جاری رکھیں گی۔‘‘

ع ب / م م / اے ایف پی