1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگلوں اور پہاڑوں سے گزرتے ہوئے مہاجرین مقدونیہ میں داخل

عاصم سليم24 اپریل 2016

يورپ ميں سرحدی بندشوں کے باعث کئی ماہ سے شمالی يونان ميں پھنسے تارکين وطن مقدونيہ اور ديگر مقامات تک رسائی کے ليے اب نئے راستوں کی تلاش ميں ہيں۔

https://p.dw.com/p/1Iblo
تصویر: Reuters/M. Djurica

نيوز ايجنسی روئٹرز کی يونانی شہر ایڈومينی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق مہاجرين شمالی يونان کے مہاجر کيمپوں سے مقدونيہ تک پہنچنے کے ليے رات کی تاريکی ميں جنگلات اور پہاڑی راستے اختيار کر رہے ہيں۔ روئٹرز کے ايک ذرائع نے ہفتے اور اتوار کی درميانی شب تقريباً سترّ تارکين وطن کے ايک گروپ کو يونان سے مقدونيہ ميں داخل ہوتے ہوئے ديکھا۔ ذرائع کے مطابق تارکين وطن نے جنگلات سے گزرتے ہوئے ايک ايسے مقام سے سرحد پار کی جہاں باڑ نصب نہيں تھی۔ يہ مقام ایڈومينی کے مہاجر کيمپ سے تقريباً بيس کلوميٹر کے فاصلے پر ہے اور مہاجرين نے يہ سفر پيدل چلتے ہوئے چار گھنٹوں ميں طے کيا۔

ایڈومينی ميں قائم مہاجر کيمپ مہاجرين کی حالت زار کا عکاس ہے۔ رواں برس فروری کے مہینے ميں بلقان کی کئی رياستوں کی جانب سے اپنی سرحدیں بند کرنے کے بعد ہزاروں پناہ گزين اس کيمپ ميں پھنس چکے ہيں۔ کيمپ کے حالات انتہائی ناقص ہيں اور مہاجرين کو سخت سردی، مسلسل بارش اور وسائل کی قلت جيسے کئی مسائل کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرمم کئی تنظيميں ایڈومينی کے حالات کو انتہائی ناقص قرار دے چکی ہيں۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرمم کئی تنظيميں ایڈومينی کے حالات کو انتہائی ناقص قرار دے چکی ہيں
انسانی حقوق کے لیے سرگرمم کئی تنظيميں ایڈومينی کے حالات کو انتہائی ناقص قرار دے چکی ہيںتصویر: DW/P. Kouparanis

رپورٹوں کے مطابق ایڈومينی کے کيمپ ميں موجود ديگر مہاجرين بھی فرار ہونے کے راستوں پر غور و فکر کر رہے ہيں۔ وہ ايسے مقامات کی تلاش ميں ہيں جہاں سے گزر کر مغربی يورپی ممالک تک پہنچا جا سکے۔ حلب سے تعلق رکھنے والا ايک شامی پناہ گزين معتاز کہتا ہے، ’’اس کے علاوہ کوئی راستہ نہيں۔ دوسرے لوگ خود کو ہماری جگہ رکھ کر دیکھیں، وہ ايسی زندگی گزار رہے ہوں تو آخر کيا کريں گے؟‘‘

اياس نامی ايک اور شامی تارک وطن کے بقول وہ مغرب کی طرف سے البانيا کا بارڈر پار کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس نے روئٹرز کو بتايا، ’’اس بات کا امکان موجود ہے کہ مقدونيہ والے راستے سے جايا جائے ليکن مقدونيہ کی فوج واپس بھيج دے گی۔‘‘

کچھ پناہ گزين اپنے فرار کے راستے خود ہی تلاش کر رہے ہيں جبکہ ديگر ساڑھے تين سو سے چھ سو ڈالر کے عوض انسانوں کے اسمگلروں کا سہارا ليتے ہيں۔ ایڈومينی ميں اس وقت بھی تقريباً دس ہزار پناہ گزين مقيم ہيں۔ يونانی حکام متعدد مرتبہ انہيں متبادل مہاجر کيمپوں ميں منتقل ہونے کا کہہ چکے ہيں ليکن وہ اپنی جگہ چھوڑنے کو تيار نہيں۔