1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگلی حیات کی بقاء کے لیے امریکی فیصلے

زبیر بشیر10 ستمبر 2013

امریکی صدر باراک اوباما نے تحفظِ ماحول اور تیزی سے ناپید ہوتے جانوروں گینڈے، شیر، ہاتھی اور بندروں سمیت دیگر جنگلی حیات کی بقاء کے لیے مختلف حکومتی اداروں کے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19ecL
بنگال ٹائیگرتصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تحفظ ماحول کی اس جستجو میں امریکا میں ہاتھی دانت کی چھ ٹن وزنی ایک بڑی کھیپ کو تلف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد ہاتھی دانت کے حصول کے لیے ہاتھیوں کے شکار کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ یہ ہاتھی دانت گزشتہ پچیس برسوں کے دوران مختلف امریکی اداروں نے مختلف کارروائیوں کے دوران قبضے میں لیے تھے۔

جانوروں اور ان کے مختلف اعضاء کی اسمگلنگ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ایک بڑا اور وسیع کاروبار ہے اور اس کام میں بڑے بڑے بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہ ملوث ہیں۔

Baby Schimpansen in Abidjan Zoo
غیر قانونی شکار کی وجہ سے مختلف جنگلی جانور تیزی سے ناپید ہو رہے ہیںتصویر: Tamasin Ford

امور داخلہ کی امریکی وزیر سیلی جیول کے مطابق تلف کیے جانے والے اس ذخیرے میں مکمل، سادے، نقش و نگار کیے ہوئے اور چھوٹے بڑے مختلف قسم کے ہاتھی دانت شامل ہیں۔ اس اقدام کا مقصد ان افراد کی حوصلہ شکنی کرنا ہے، جو گینڈوں، شیر، ہاتھی اور بندروں کے شکار اور اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میرے لیے یہ نہایت صدمے کی بات ہے، ’’سن 2007 سے اب تک جنگلی حیات کی غیر قانونی اسمگلنگ دوگنا ہوچکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ اس وقت دنیا کا چوتھا بڑا بین الاقوامی جرم بن چکا ہے۔‘‘

دنیا کے مختلف حصوں خصوصاﹰ ایشیا میں ہاتھی دانت، رائنو کے سینگ اور دیگر جانوروں کے مختلف اعضاء کی بڑھتی ہوئی مانگ نے ان کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ اسی چیز نے اس غیر قانونی تجارت میں اسمگلرز کی دلچسپی کو اور بھی زیادہ بڑھا دیا ہے۔

Afrika Wilddiebe Wilderer Elefant
ہاتھی دانت کے حصول کے لیے ہر سال سینکڑوں ہاتھیوں کو مار دیا جاتا ہےتصویر: AP Photo/Courtesy Karl Amman

امریکی جنگلی حیات اور ماہی گیری کے شعبے کے ڈائریکٹر ڈین آشے کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’یہ باقاعدہ، انتہائی منظم اور مالی طور پر مستحکم گروہ ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے مربوط حکومتی حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔‘‘

اسی تشویشناک صورت حال کے پیش نطر امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے یکم جولائی کو جاری کیے گئے ایک حکم نامے میں مختلف حکومتی اداروں بشمول محکمہ خزانہ، دفاع، ہوم لینڈ سکیورٹی،نیشنل انٹیلی جنس اور نیشنل سکیورٹی کونسل کو اس جرم کے خلاف مل کر کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔