1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

جوان ہوتے بچوں کے مسائل یہ ہیں، ان پر توجہ دیں!

13 مارچ 2022

اکثر پاکستانی گھرانوں میں اولاد کے ساتھ بھی یہی سلوک برتا جاتا ہے۔ ہمارا عمومی رویہ اولاد کے ساتھ بالکل کسی ملکیتی شے والا ہے۔ ہم بچے کو جیتا جاگتا، اپنی سوچ یا جذبات رکھنے والے انسان ہی نہیں سمجھتے۔

https://p.dw.com/p/48PUz
DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

اگر آپ کسی منظر کو تصور کر کے کچھ لمحے اس میں جینے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو تب ہی ممکن ہے کہ آپ کسی کی تکلیف یا اذیت کا  اندازہ کر سکیں۔ ایک آفس کا منظر ہے، جہاں بے ترتیب فائلوں کا ڈھیر لگا ہے۔ آپ پر اردگرد کی ڈھیر ساری پریشانیوں، ورک لوڈ، کام ختم کرنے کی ڈیڈلائنز کے علاوہ ایک بدمزاج قسم کا باس بھی مسلط ہے، جو نہ کسی کام پہ خوش ہوتا ہے، نہ کوئی سہولت دیتا ہے اور وقت بے وقت ہر ایک کے سامنے آپ کی عزت کی دھجیاں اڑانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

 اس کو لگتا ہے آپ اس کے محتاج ہیں اور وہ جو چاہے آپ کے ساتھ ویسا سلوک کر سکتا ہے اور باس کو یہ بھی پتہ ہے کہ اتنی ذلالت کے بعد بھی آپ اس کو کبھی چھوڑنے کی ہمت نہیں کر سکتے ۔

مجھے یہ لکھتے ہوئے تکلیف تو ہو رہی ہے لیکن اکثر پاکستانی گھروں میں اولاد کے ساتھ بھی یہی سلوک برتا جاتا ہے۔ ہمارا عمومی رویہ اولاد کے ساتھ بالکل کسی ملکیتی شے والا ہے۔ ہم بچے کو جیتا جاگتا، اپنی سوچ یا جذبات رکھنے والے انسان ہی نہیں سمجھتے۔ ٹین ایجرز یا جوان ہوتے ہوئے بچوں کے کئی مسائل والدین کے اس قسم کے رویے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

 ایک دن کمرہ جماعت میں طلبہ سے اس موضوع پہ بات کرنے کا موقع ملا تو بہت سے ایسے عوامل سامنے آئے، جن کو سن کر لگا کہ کہیں نہ کہیں کوتاہی ہم سے سرزد ہو رہی ہے اور ہم اگلی نسل کے جارہانہ رویوں کی ذمہ داری صرف میڈیا، انٹرنیٹ یا ویڈیو گیمز پر نہیں ڈال سکتے۔ نفسیات کے حوالے سے مطالعات اور کیس اسٹڈیز کے مطابق سن 2000 کے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کی شخصیت میں گزشتہ نسل کے مقابلے میں پرسنیلٹی کا بہت زیادہ فرق ہے اور میلینیلز کے مقابلے میں ان ٹین ایجرز کے چیلنجز اور مسائل کافی مختلف ہیں۔

امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کے مختلف خطوں میں آزادنہ سروے کے ایشیائی نتائج مندرجہ ذیل ہیں۔ ان میں پاکستانی بچے بھی شامل ہیں۔

  • 87 فیصد ٹین ایجرز نیند کے مسائل کا شکار ہیں، بے خوابی یا نیند کا پیٹرن درست نہ ہونا انسان کی صحت اور کارکردگی متاثر ہونے کی اہم وجہ ہے۔
  • 74 فیصد بچے یہ محسوس کرتے ہیں کہ والدین کی توجہ ان پہ کم اور گھر کے دوسرے افراد یعنی بہن بھائیوں پر زیادہ ہے اور وہ احساس محرومی کا شکار ہیں۔
  • انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں 75 فیصد بچے اپنی جسمانی ساخت، چہرے کے نقوش یا اپنی جنسی شناخت کے حوالے سے مطمئن نہیں ہیں۔ گزشتہ نسل میں یہ احساس بہت کم تھا لیکن سوشل میڈیا، لائیکس اور کومنٹس کے دباؤ نے بچوں کو اس حوالے سے غیر ضروری طور پہ حساس بنا ڈالاہے۔
  • 73 فیصد ٹین ایجرز ٹائم مینجمنٹ کے ہنر سے ناواقف ہیں اور اس کی  بنیاد کم خوابی یا بے خوابی بتائی جاتی ہے۔
  •  89 فیصد ٹین ایجرز اچھے تعلیمی رزلٹ کے دباؤ میں ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ دوسرے بچوں سے مسلسل موازنے اور والدین کی طرف سے تعلیم کے میدان میں غیرحقیقی توقعات نے طلبا کی دیگر تخلیقی صلاحیتوں کو بالکل تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
  • 55 فیصد ٹین ایجرز آن لائن اور آف لائن ہراسانی یا بُلنگ سے متاثر ہیں۔ ایک متفقہ مسئلہ، جو تمام بچوں کی طرف سے بیان کیا گیا، وہ یہ گلہ تھا کہ والدین یا بڑے اپنی ذات کے لیے عزت  اور احترام لازم و ملزوم سمجھتے ہیں لیکن بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے یا محفل میں دوران گفتگو خود اس بات کا خیال نہیں کرتے، جس سے ان کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے۔
  •  اسی طرح جوان ہوتے بچوں میں جسمانی اور ہارمونل تبدیلیوں کے بارے میں ان کو والدین کی طرف سے آگاہی اور راہنمائی ملنی چاہیے تا کہ جھجھک ختم ہو اور ان کے بیچ ہم آہنگی پیدا ہو۔ لیکن یہ انتہائی اہم معلومات ان کو دوستوں یا کلاس فیلوز سے پتہ چلتی ہے۔ انٹرنیٹ اور ہر قسم کے مواد تک رسائی ہونے کی وجہ سے ٹین ایجرز میں غیر حساس رویے، سائبر بُلنگ اور پورن دیکھنے کی لت وغیرہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

اب اس پوری بات کا مقصد صرف یہ تھا کہ ان تمام مسائل کے حل کی بات کی جائے۔ شعبہ تعلیم سے تعلق اور بارہا پیرنٹ ٹیچر میٹنگ میں والدین سے ان مسائل کے بارے میں سن کر مجھے صرف ایک بات کا احساس ہوا کہ والدین اور اس عمر کے بچوں میں خلیج کی بنیادی وجہ ذہنی مطابقت یا ہم آہنگی کا نہ ہونا ہے۔

ہر مسئلے کا حل ڈانٹ  پھٹکار نہیں ہوتا۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ مکالمے کی طرف ایک قدم بڑھا کر انہیں مستقبل کے کئی اندیشوں اور پریشانیوں سے بچا سکتے ہیں۔  

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔