1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری ہتھیاروں کے خلاف عالمی معاہدہ، ایٹمی طاقتوں پر دباؤ

26 اکتوبر 2020

اقوام متحدہ کے اس معاہدے پر پچاس ممالک دستخط کر چکے ہیں اور نوے دنوں میں اس کی توثیق کی جائے گی۔ اس کا مقصد ایٹمی قوتوں پر دباؤ بڑھانا ہے۔

https://p.dw.com/p/3kSop
Activists Protests Against North Korea Tensions
تصویر: Getty Images/O. Messinger

ہنڈوراس اس معاہدے پر دستخط کرنے والا پچاسواں ملک تھا۔ اس وسطی امریکی ملک نے جوہری ہتھیاروں کی ممانعت سے متعلق اقوام متحدہ کے اس معاہدے کی نہ صرف توثیق کی ہے بلکہ اس نے یہ بیڑا بھی اٹھایا ہے کہ کوئی دوسرا دستخظ کنندہ ملک کسی بھی حالت میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری، خریداری، قبضہ یا ذخیرہ نہ کرے۔ ہنڈوراس کی حکومت کے دستخط کے ساتھ ہی ایک سنگ میل عبور کر لیا گیا ہے۔ اب یہ معاہدہ آئندہ برس بائیس جنوری سے نافذ العمل ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ یہ دستاویز "جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے لیے ایک اہم عزم" کی نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے ان تنظیموں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے، جنہوں نے اس مسئلے کو مسلسل اجاگر کیا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کی مہم آئی کین ( آئی سی اے این) نامی اتحاد نے شروع کی تھی۔ اس اتحاد میں ایسی پانچ سو تنظیمیں اور ادارے شامل ہیں، جو دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ اسی اتحاد کی ڈائریکٹر بیٹرس فہن کو سن دو ہزار سترہ میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ اس اتحاد کا کہنا ہے کہ اسی طرح ایٹمی ممالک پر دباو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اب اس تحریک میں بینکوں اور سرمایہ کاروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

جنیوا میں ہنڈوراس کی طرف سے دستخط سے پہلے اس اتحاد کی ڈائریکٹر فہن کا کہنا تھا، 'جوہری ہتھیار غیر اخلاقی ہیں، قانون کی خلاف ورزی ہیں اور ان پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ''ایٹمی جنگ میں ہم کورونا وائرس کی طرح اعداد وشمار بہتر نہیں بنا سکتے، 'ایک ایٹمی جنگ مکمل تباہی ہے۔ تب فلاحی تنظیمیں بھی مدد نہیں کر سکتیں۔‘

صرف علامتی معاہدہ
تاہم ابھی تک یہ معاہدہ ایک علامتی معاہدہ ہے۔ کیوں کہ جن ممالک نے اس پر دستخط کیے ہیں یا اس کی توثیق کی ہے، ان میں سے کسی کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں۔ جوہری طاقتیں امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس، پاکستان، بھارت، اسرائیل اور شمالی کوریا اس میں شامل نہیں ہیں۔

اسی طرح جرمنی اور نیٹو ممالک بھی اس میں شامل نہیں ہیں۔ کیوں کہ نیٹو ممالک کی اب بھی یہی پالیسی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کا خوف برقرار رکھا جائے۔
 

ا ا / ع ح ( اے پی، اے ایف پی)


 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں