1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جی کا جانا ٹھہر گیا ہے‘

22 مارچ 2022

کچھ ماہ قبل اسلام آباد میں زرداری ہاؤس کے ارد گرد سناٹا طاری تھا۔ نا بندہ نا بندے کی ذات، سوائے کچھ پرانے جیالوں اور خادموں کے۔ ایسا لگتا تھا جیسے پیپلز پارٹی سے اقتدار کی سیاسی زندگی روٹھ سی گئی ہو۔ اویس توحید کا بلاگ

https://p.dw.com/p/48pOj
Pakistan | DW Urdu Blogger | Owais Tohid
اویس توحید (بلاگر)تصویر: privat

مرگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں  موجود ہے زرداری ہاؤس۔ مضبوط لوہے کے دروازے، تین رنگ کے جھنڈے، دیواروں پر  بھٹو اور بینظیر کی تصاویر اور پیپلزپارٹی کا انتخابی نشان تیر۔ کچھ ماہ قبل اس بنگلہ کے ارد گرد سناٹا طاری تھا۔ نا بندہ نا بندے کی ذات، سوائے کچھ پرانے جیالوں اور خادموں کے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پیپلز پارٹی سے اقتدار کی سیاسی زندگی روٹھ سی گئی ہو۔ لیکن ان دنوں یہاں سیاسی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔ ایک کمرے میں زرداری لاٹھی کے سہارے بغیر  بیٹھے ہوتے ہیں۔ ارد گرد ان کے اپنے دور کے وزرائے اعظم اور اعتماد والے راجہ پرویز اشرف اور  یوسف رضا گیلانی ٹیلیفون رابطوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بلاول کی ذمہ داری پریس کانفرنسز اور بیانات داغنا ہے۔ گویا وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کا چہرہ بنے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی کچھ کردار مریم نواز کا ہے جو حکومت مخالف طعن و تشنیع سے بھرپور بیانات دیتی نظر آتی ہیں۔

کبھی مولانا کے پگڑیوں اور داڑھیوں والے ساتھیوں کے قافلہ کی آمد تو کبھی چھوٹے میاں صاحب یعنی شہباز شریف کی ن لیگیوں کے ساتھ پھیرے۔ کبھی ایم کیو ایم تو کبھی اسٹیبلشمنٹ سے قریب ترین سمجھے جانے والی جماعتوں چوہدری برادران کی ق لیگ اور ''مائی باپ‘‘ کی  پارٹی ''باپ‘‘ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی کے چکر۔ غرض یوں سمجھ لیجیے کہ عمران خان صاحب کی حکومت کے خلاف تحریک کا مرکز زرداری ہاؤس ہے۔ اور زرداری عمران خان کو پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے چت کرنے کے لیے نمبر گیم کے حصول اور جوڑ توڑ کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ گویا انہوں نے اپوزیشن کی تحریک کے سپہ سالار کا روپ دھارا ہوا ہے۔ کس کو جوڑنا ہے، کس کو توڑنا ہے۔ جو جو خان صاحب کی صفوں سے جدا ہوتا ہے، اس کا مسکن قومی اسمبلی کے نزدیک واقع  ''سندھ ہاؤس‘‘ ہے۔

زرداری صاحب کی جوڑ توڑ کے چرچے ہیں۔ ان کی سادہ سی تیکنیک، ''ہم کیا کریں کہ آپ ہمارے ساتھ ہوں؟‘‘ یہی پیشکش ایم کیو ایم کے قافلہ کو دی گئی۔ الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور کراچی میں سیاسی بالا دستی کو بحال کرنا چاہتی ہے تو فوراﹰ ہی مفاہمت کا ہاتھ تھام لیا۔ بلدیاتی اختیارات،  صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت میں وزارتیں اور گورنر کے عہدے کے مطالبات پر زرداری صاحب کی رضامندی۔ تاہم ایم کیو ایم پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہتی ہے تو باضابطہ اعلان ابھی باقی۔

ادھر وزیر اعظم ہاؤس اور خان صاحب کی بنی گالہ رہائش گاہ پر پریشانیوں کا ڈیرہ ہے۔ چوہدری برادران کے حکومت مخالف بیانات۔ جہانگیر ترین اور علیم خان بھی ناراض۔ پارٹی سے نالاں قومی اسمبلی کے 15 سے 20 اراکین کا انحراف ۔ تحریک عدم اعتماد کا سامنا۔ کریں تو کیا کریں؟ اتحادیوں کے فاصلے، اراکین کا منحرف ہونا۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھیں تو صدا کچھ یوں سنائی دیتی ہے کہ ''مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ ۔ چند ماہ میں سیاسی بساط کا پلٹنا۔  عمران خان حکومت کو پریشانیوں نے اس وقت گھیرے میں لیا جب آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی میں وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے تاخیر ہوئی تو تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ گویا اسٹیبلشمنٹ کے اعتماد اور ساکھ کو ٹھیس پہنچی۔ میڈیا، سیاسی اور عوامی حلقوں میں چرچا ہوا اور یوں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے مابین شیشے کی دیوار کھڑی ہو گئی۔  قربتیں فاصلوں میں بدل گئیں۔ اور کچھ یوں تشریح ہوئی کہ اسٹیبلشمنٹ ریاستی امور اور قومی مفاد کے ایشوز پر حکومت کے ساتھ ہوگی جیسے اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کے بل کی منظوری ہوئی،  لیکن سیاسی مسائل سے نمٹنا حکومت کی ذمہ داری۔  نہ فون کال، نہ سمجھانا نہ منانا۔

اچھے دنوں میں جہانگیر ترین کے جہاز میں کئی آزاد امیدوار تحریک انصاف کی صفوں  میں شامل ہوئے۔ جنوبی پنجاب کے سیاسی رہنماؤں نے موسمی پرندوں کے غول کی طرح عمران خان کے اقتدار کے گھونسلے میں پناہ لی، سب قابل قبول تھا۔ پارٹی کے مفلر شاہی پوشاک کی طرح پہنائی گئیں۔ کسی کے انحراف کرنے کا خیال بھی نہ آیا۔

  ان ساڑھے تین برس میں تو اتحادیوں کے جدا ہونے کا شائبہ بھی نہ تھا۔ اشاروں کنا یوں اور فون کالز پر ساتھ رہا، نہ بلیک میلنگ نہ مطالبات کی لمبی فہرست۔ لیکن  گزشتہ چند ماہ میں کافی کچھ بدل گیا۔ پہلے بوکھلاہٹ پھر جھنجھلاہٹ، عمران خان اور ان کے حواری آگ بگولہ ہیں۔  تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو غدار اور بکاؤ مال کہا جا رہا ہے، کوسا جارہا ہے۔ ان کے گھروں کا گھیراؤ کیا جا رہا ہے اور پُتلے جلانے جا رہے ہیں۔ عمران خان ان منحرف اراکین کو دھمکی آمیز بیانات میں خبردار کر رہے ہیں کہ ان کا سیاسی مستقبل زندگی بھر کے لیے تاریک ہو جائے گا، ان کی اولادوں کو سماجی نفرت کا سامنا کرنے پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر وہ لوٹ آئیں گے تو انھیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ سیاسی گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا۔

سیاسی دھمکیوں کے علاوہ عدالت عظمی سے بھی منحرف اراکین کی قسمت کے فیصلے کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔ تاہم عمران خان صاحب کو احساس ہوچلا ہے کہ بدلتے موسم میں شاید وہ قومی اسمبلی میں اپنی عددی طاقت کھو رہے ہیں۔ اسی وجہ سے عوامی جلسے کیے جا رہے ہیں۔ اگلے انتخابات پر نظریں ہیں۔ عمران خان اپنی حکومت کے خلاف تحریک کو عالمی طاقتوں کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین کو للکار رہے ہیں۔ خود مختار خارجہ پالیسی اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔ گویا وہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی طرز پر اسلامی دنیا کے رہنما کی طرح خود کو پیش کر ہے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان آئندہ انتخابات میں ان ہی نعروں یعنی مغربی دنیا مخالف بیانیہ کو فوقیت دیں گے۔

ادھر زرداری ہاؤس میں اپوزیشن رہنما خوابوں کی دنیا سجائے بیٹھے ہیں۔ اگلی حکومت کے خدوخال کیا ہوں گے؟ شہباز شریف وزیراعظم ہاؤس میں زندگی گزارنے کا سوچ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان شیروانی میں ملبوس اپنے آپ کو ایوان صدر میں بیٹھا دیکھ رہے ہیں۔ خورشید شاہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے تصوراتی روپ میں گم سم ہیں۔ گیلانی سینیٹ چیئرمین کے امیدوار ہیں اور بلاول کے لیے وزیر خارجہ کے عہدے کی سوچ ہے۔ شاید اپنے نانا کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں، جنہوں نی جنرل ایوب کے دور میں بطور وزیر خارجہ اپنے اقتدار کے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔ آنے والے ماہ آزمائشوں کے کانٹوں میں الجھے نظر آتے ہیں۔ نومبر میں آرمی کے سربراہ کی تعیناتی کا معاملہ ہے۔ کیا نواز شریف لندن سے واپس آئیں گے یا پھر الطاف حسین کی طرح سیاسی پیر کے روپ میں نظر آئیں گے۔ ان کی سیاسی جانشین مریم اگلے انتخابات میں حصہ لے پائیں گی یا پھر قسمت کی چکی میں مزید آزمائشی چکر نصیب میں ہوں گے۔

 جہاں زرداری ہاؤس کے اردگرد اقتدارکے خواب بنے جار ہے ہیں وہاں  عمران خان اقتدار سے باہر ایک زخمی شیر کی طرح ہوں گے۔ لیکن فی الوقت بنی گالہ کے ماحول میں ایک ہی صدا گونج رہی ہے۔ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ صبح گیا یا شام گیا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔