1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حلف وفاداری: خواہش یا مجبوری

کشور مصطفیٰ4 اگست 2015

مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں کو اسرائیل نے یہ پیش کش کر رکھی ہے کے اگر وہ چاہیں تو اسرائیلی شہریت حاصل کر سکتے ہیں تاہم فلسطینیوں کی اکثریت اس پیشکش کو رد کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1G9Xc
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Hollander

مشرقی یروشلم کے فلسطینی اسرائیلی شہریت حاصل کر رہے ہیں۔ 1967ء میں مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران اسرائیل نے اُردن سے مشرقی یروشلم کے علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس اسرائیلی اقدام کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور تب سے اب تک فلسطینیوں کی شناخت ایک پیچیدہ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

اسرائیل مشرقی یروشلم کو اپنا حصہ سمجھتا ہے جب کہ وہاں آباد قریب تین لاکھ فلسطینی خود کو کسی صورت اسرائیلی شہری نہیں کہلوانا چاہتے ہیں جب کہ ان فلسطینیوں کو اسرائیلی حکومت نے بلیو کارڈ بطور شناختی کارڈ جاری کر رکھا ہے اور بلیو کارڈ مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں کے لیے مستقل قیام یا سکونت کا اجازت نامہ بھی ہے۔

مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں کو اسرائیل نے یہ پیش کش کر رکھی ہے کے اگر وہ چاہیں تو اسرائیلی شہریت حاصل کر سکتے ہیں تاہم فلسطینیوں کی اکثریت اس پیشکش کو رد کرتی ہے۔ وہ اپنی تاریخ اور شناخت مٹا کر 48 سالہ اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔

Zum Leben zu Wenig
جینے کے لیے صرف شناختی کارڈ کافی نہیںتصویر: AP

محققین اور وکلاء کے مطابق ان تمام حقائق کے باوجود گزشتہ ایک دہائی کے دوران مشرقی یروشلم کے اُن فلسطینوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو ایک طویل اور دشوار عمل سے گزر کر اسرائیلی شہریت حاصل کر رہے ہیں۔

نا اُمیدی

مشرق وسطیٰ کے تنازعے پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیلی شہریت کی پیشکش کو قبول کرنے کا عمل کسی حد تک اس امر کی نشاندہی ہے کہ ان فلسطینوں میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی اُمید اب دم توڑ رہی ہے۔ دوسری طرف یہ صاف اور واضح اشارہ ہے اس طرف کے اسرائیلی شہریت حاصل کرنے کا عمل ان فلسطینیوں کی زندگی کو کسی حد تک آسان بنا دے گا۔ مثال کے طور پر اسرائیلی شہریت کے ساتھ ان فلسطینیوں کو ملازمت تبدیل کرنے، مکان کی فروخت اور منتقلی اور غیر ملکوں کا سفر کرنے اور دیگر سماجی سہولیات تک رسائی میں کافی آسانی ہو جائے گی۔

اعداد و شمار متنازعہ

اسراسیلی حکام ان اعداد و شمار کی تصدیق سے گریز کر رہے ہیں تاہم یروشلم انسٹیٹیوٹ فار اسرائیل اسٹیڈیز کے کوائف کے مطابق مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیلی شہریت کے حصول کے لیے درج کی گئی درخواستوں کی تعداد میں گزشتہ ایک دہائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور 2003ء کے مقابلے میں یہ تعداد 114 سے بڑھ کر 800 سے ایک ہزار کے درمیان ہو گئی ہے۔ ان میں سے نصف کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کی رسمی درخواستوں کے عمل شروع ہونے سے پہلے سینکڑوں کی چھان بین کی گئی۔ اُدھر خبر رساں ادارے رائٹرز کو وزارت داخلہ کی طرف سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق دوہزار تیرہ اور دو ہزار چودہ کے دوران فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیلی شہریت حاصل کرنے کے لیے ایک ہزار چار سو چونتیس درخواستیں جمع کرائی گئیں، جن میں سے 189 منظور کی گئیں۔ 1,061 درخواستیں زیرغور ہیں جب کہ 169 درخواستیں رد کی جا چُکی ہیں۔

Israel Palästinenser in Jerusalem
مشرقی یروشلم کے فلسطینوں کے لیے دوہُری مشکلاتتصویر: Reuters/B. Ratner

حلف وفاداری

جن فلسطینیوں نے اسرائیلی شہریت کے لیے درخواستیں دی ہیں، وہ اس بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ شہریت حاصل کرنے کا مطلب ہے، اسرائیل کے ساتھ فواداری کا حلف اُٹھانا اور ’دشمن کی صفوں میں شامل ہونا‘ ممنوع ہے۔

ایک 46 سالہ فلسطینی ٹیچر نے ایک سال قبل یہ حلف اُٹھایا تھا۔ وہ کہتی ہیں،’’یہ ایک نہایت بُرا سا احساس ہوتا ہے‘‘۔ اس بارے میں تحفظات رکھنے کے باوجود ان کے لیے یہ فیصلہ صحیح تھا کیونکہ یہی ایک صورت تھی مستقبل اور کیریئر کو مستحکم بنانے کی۔ اُن کے بقول،’’ ہم محض اپنی زندگیاں جینا چاہتے ہیں۔ آخر کار سیاست ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتی‘‘۔