1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خادم حسین رضوی انتقال کر گئے

شمشیر حیدر عدنان اسحاق
19 نومبر 2020

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی شدید بخار میں مبتلا تھے۔ ایسی خبریں بھی ہیں ان کا انتقال دل کی دھڑکن بند ہونے سے ہوا۔

https://p.dw.com/p/3lZgC
Chadim Hussain
تصویر: ISNA

ذرائع کے مطابق راولپنڈی میں حالیہ دھرنے کے دوران انہیں بخار ہو گیا تھا اور جو اس دوران شدت اختیار کر گیا۔ خادم حسین رضوی کا انتقال شیخ زید ہسپتال میں ہوا اور اس کے بعد ان کی میت کو ایک نجی ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔

ان کے انتقال کی تصدیق آصف جلالی نے کی جو ٹی ایل پی کے ایک اور دھڑے کے سربراہ ہیں۔ جس وقت ان کی طبیعت بگڑی وہ لاہور میں اپنے گھر پر تھے۔ اس کے علاہ ان کے بیٹے سعد رضوی نے بھی مقامی ذرائع ابلاغ سے باتیں کرتے ہوئے اس خبر کی تصدیق کی۔

خادم حسین رضوی کون تھے؟

خادم حسین رضوی پاکستانی میڈیا اور سیاسی منظر نامے پر نومبر سن 2017 میں اسلام آباد میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف دیے گئے دھرنے کے بعد زیادہ نمایاں دکھائی دیے۔

صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک میں سن 1966 میں پیدا ہونے والے خادم حسین رضوی اس سے قبل صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس اہلکار ممتاز قادری کی حمایت میں بھی کافی سرگرم رہ چکے تھے۔ انہوں نے ضلع جہلم کے مدارس سے مذہبی تعلیم حاصل کی اور سیاست میں آنے سے قبل لاہور میں محکمہ اوقاف کی ایک مسجد کے خطیب رہے۔

یہ بھی پڑھیے: ٹی ایل پی کا دھرنا ختم، ’عمران خان کو ایک ٹریلر دکھایا ہے‘

رضوی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور توہین مذہب اور پیغمبر اسلام کی توہین کے واقعات کے خلاف بھی اکثر احتجاج کرتے دکھائی دیتے رہے۔

تحریک لبیک پاکستان، تحریک لبیک یا رسول اللہ کا ایک سیاسی بازو ہے اور اس کا قیام 2016ء میں ہوا تھا۔ یہ وہ سال تھا جب صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے انہی کے ایک محافظ ممتاز قادری کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: خادم حسين رضوی کے بھائی کو پچپن برس قيد کی سزا

اس واقعے کے بعد ممتاز قادری کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی تحریک کا نام تھا ' تحریک رہائی ممتاز قادری‘اور بعدازاں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا تھا۔

2018ء میں انتخابات سے کچھ عرصہ قبل ٹی ایل پی کی جانب سے فیض آباد میں حلف برداری کے متن میں تبدیلیوں کے خلاف اکیس روزہ ایک دھرنا بھی دیا گیا۔ تاہم مسلم لیگ ن کی جانب سے اس وقت کے وزیر قانون کو برطرف کرنے کے بعد ہی دھرنا ختم ہوا تھا۔

سوشل میڈیا پر رد عمل

خادم رضوی کے انتقال کی خبر کے بعد سوشل میڈیا پر ان کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے۔ صحافی اور قریبی حلقے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے دکھائی دیے اور اس کے ساتھ ان کے چاہنے والے غم کا اظہار بھی کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیے: پیرس حملے میں ملوث پاکستانی تحریک لبیک پارٹی سے متاثر تھا

صحافی طلعت حسین نے لکھا، ''تحریک  لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم رضوی انتقال کر گئے۔ فیملی ذرائع کے مطابق ان کا انتقال حرکت قلب بند ہونے کے سبب لاہور میں ہوا-‘‘

مسلم لیگ نون کے کئی حامیوں نے بھی اپنی ٹوئیٹس میں ایک طرف تو ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھتے دکھائی دیے کہ خادم رضوی نے چند دن پہلے ہی کہا تھا کہ وہ جلد بتائیں گے کہ انہوں نے کس کے کہنے پر دھرنا دیا تھا۔

صحافی اقرار الحسن نے سوشل میڈیا پر جاری مباحث اور خادم رضوی کے انتقال کے بارے میں لکھا، ''یہ قطعی مناسب موقع نہیں کہ ان سے نظریاتی اختلافات کا ذکر کیا جائے۔‘‘