1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خدارا، اپنی اولاد کے ساتھ ایسا مت کیجیے!

23 اپریل 2021

گھر میں مکمل خاموشی دیکھ کر کتاب کھول کر بیٹھی تھی۔ چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ پڑوسن کی چنگھاڑتی آواز کے ساتھ اس کے بچوں کے رونے کی آواز آنی شروع ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/3sSZo
DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

وہ شاید بچوں کو پیٹ رہی تھیں اور اب یہ روز کا معمول تھا۔ اس صورت حال میں مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں، ان کا ذاتی معاملہ سمجھ کر کان لپیٹ کر کام کرتی رہوں یا جا کر پوچھوں کہ بی بی کیوں روز بچوں کو اس قدر مارتی ہو اور اس پر چیخ چیخ کر بولنا، دروازے  مارنا اور برتن پٹخنا۔

اگر پڑوس کی وجہ سے میں اس شور اور اس قسم کے ماحول سے اس قدر نالاں تھی تو ان بچوں پہ اس سب کا نفسیاتی اثر کیا ہونا ہے؟ بہرحال  مجھے سکون سے کام کرنا تھا تو میں نے دروازے پر دستک دے کر اس تکلیف دہ سلسلے میں دخل اندازی کر دی۔ کچھ دیر رکی جب معاملہ ٹھنڈا ہوتا دکھا تو نکل آئی لیکن آتے آتے خاتون خانہ کو یہ باور ضرور کر آئی کہ اگر آپ کو اپنے بچوں کے اونچا بولنے اور چیخنے سے غصہ آتا ہے تو آپ خود ان سے آرام سے بات کرنا شروع کر دیں، شاید معاملات بہتر ہو جائیں۔

دل میں شاید وہ مجھے گالیاں دے رہی ہوں کہ ان کی پرائیویسی میں مخل ہوئی لیکن وہ گھبرا ضرور گئیں تھیں کہ اس معاملے پہ لوگ ان سے سوال کر سکتے ہیں کہ اولاد غصہ نکالنے کے لئے کوئی پنچنگ بیگ نہیں بلکہ جیتا جاگتا انسان ہوتی ہے۔

برصغیر پاک و ہند کی روایات میں بزرگوں کا ادب اور احترام معاشرے کی ایک اہم روایت ہے، ہندوستان میں بزرگوں کے پاؤں چھو کر ان کی تعظیم کرنا اور ہمارے ہاں بڑوں کے سامنے سر  جھکا کر ہر بات تابعداری سے قبول کرنا ہی اچھے کردار اور شخصیت کی علامت ہے۔ یہ روایات ہمارے معاشرے کا حسن ہیں لیکن اس حسن کے باوجود ہمیں اپنے اردگرد کہانیوں کی صورت ایسے بدصورت المیے بکھرے دکھائی دیتے ہیں، جو اسی فرمانبرداری کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کو خدا کی مرضی کے کھاتے میں ڈال کر اپنے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر لیا جاتا ہے۔

حد سے بڑھی عقیدت اور فرمانبرداری نسلوں کے بیچ کمیونیکشن گیپ کی وجہ بن جاتی ہے۔ مہذب دنیا میں والدین کو لے کر ریسرچ کی جا رہی ہے تاکہ بچوں کے نفسیاتی اور جذباتی تحفظ پر مزید کام کیا جا سکے اور یہ ریسرچز صرف بچوں کی حد تک نہیں بلکہ بالغ افراد کے لئے بھی ہیں۔ ہم اس موضوع پر بات کرنے کو تیار نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر کسی گھر کا سربراہ احساس برتری  یا نرگسیت کا شکار ہو تو پورے گھرانے کی نفسیات پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور خدا نہ کرے اگر والدین میں ایسا ہو تو 'ٹاکسک پیرنٹنگ‘ نامی رویہ پورے خاندان کی بنیاد ہلا دیتا ہے۔ ہمارے ہاں والدین یا بزرگ اس بات کو سرے سے مانتے ہی نہیں، تو چلیے ایک کاغذ قلم اٹھایے اور چند سوالوں کے جوابات ہاں یا ناں میں لکھ کر خود احتسابی کیجیے۔

اگر  کوئی انسان یا بچہ اپنے بزرگوں یا والدین سے اپنا کوئی مسئلہ اس لئے نہ شیئر کر سکے کہ ان کا ردعمل نہایت خوفناک اور برا ہو گا تو سمجھ جایے کہ اگلی نسل ان پر بھروسہ نہیں کر رہی کیونکہ بزرگ چھوٹے سے معاملے پہ زیادہ ردعمل دیتے ہیں اور معاملہ سلجھنے کی بجائے الجھ جاتا ہے اور وہ خود محفل یا بحث  کا مرکز بن جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ دوسرے کی تکلیف کیا ہے۔

ہمدردی کا عنصر یا تو بہت کم ہوتا ہے یا سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ ان کی کالز یا رابطے دوسروں کو صرف اپنی آپ بیتیاں اور رونے سنانے کے لئے ہوتی ہیں، دوسرے کا دکھ سننے کا نہ وقت ہوتا ہے نہ ظرف۔ ایسے افراد، جس منظر میں بھی موجود ہوں گے، وہاں سب سے اہم ذات ان کی اپنی ہے اور وہ چیزوں کو خود کنٹرول کر کے چلتے ہیں۔ ان کی نظر میں دوسروں کی رضامندی، رائے یا اجازت کم ہی معنی رکھتی ہیں۔

ایک اہم نشانی بے تحاشہ تنقید بھی ہے۔ کسی کو ان کی کسی کارکردگی پہ سراہنے کی بجائے تنقید برائے تنقید سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اپنی اولاد، چھوٹے بہن بھائیوں یا کوئی بھی ایسا انسان جو عمر میں چھوٹا ہو، اس کا  محفل میں مذاق اڑانا یا پھر ان کی کسی ایسی کمزوری، جسمانی، معذوری، ذہنی قابلیت یا دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھنا، جس سے وہ محفل میں شرمندہ ہو جائیں۔ اس صورت میں بڑے خود سے کم عمر کو وقتی طور پر خاموش تو کروا دیتے ہیں پر اس سے ناصرف نوجوان نسل کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے بلکہ ایسے بڑوں کے خلاف ناپسندیدگی یا نفرت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

 تنقید کی طرح  الزام تراشی بھی کسی بھی انسان کی خود اعتمادی کے لئے زہر قاتل ہے۔ ہر بات کے لئے یہ کہنا کہ ہاں تمہاری وجہ سے ہوا ہو گا، تم ہی ہر نحوست کی وجہ ہو، یہ ایسے جملے ہیں، جو اکثر والدین یا بزرگ بڑی روانی میں اگلی نسل کو کہہ دیتے ہیں۔ اس صورت میں اگر بچہ یا متاثرہ شخص باہر کوئی آسرا ڈھونڈنے نکلے تو اس کی وجہ یہی رویہ ہو گا۔

ایسے ذہنی مریضوں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اپنے پسندیدہ نتائج حاصل کرنے کے لئے وہ واقعات کی ترتیب  یا حقائق بھی اپنی مرضی سے مسخ کر دیتے ہیں اور دوسرے کو تصویر کا وہی رخ دکھاتے ہیں، جہاں وہ حق پر دکھائی دیں۔ ایک خاندانی ڈھانچے کو تباہ کرنے والی بدترین چیز اولاد  کے درمیان موازنہ بھی ہے۔ جیسے پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، اسی طرح ایک گھر میں رہنے والے تمام افراد کی قابلیت، صورت یا سیرت ایک سی نہیں ہوتی۔ جب دو بھائیوں، بہنوں، بہووں یا کسی بھی دوسرے رشتے کا آپس میں موازنہ شروع کر دیا جائے تو اس میں ایک فریق ہمیشہ بہت بری طرح متاثر ہو رہا ہوتا ہے۔ دوسرا ان کے بیچ نہ چاہتے ہوئے بھی مقابلے کی فضا بن جاتی ہے اور ایک اچھا مضبوط تعلق انسیکیورٹی کی نظر ہو جاتا ہے۔

اپنے رتبے کی بقا کے لئے پیسے کا استعمال یعنی بار بار عاق کرنے کی دھمکی، جذباتی بلیک میلنگ کہ اگر تم نے یہ فیصلہ نہ مانا تو مجھے ہارٹ اٹیک ہو جائے گا، مذہب کے حوالوں سے مجبور کرنا غلط ہے۔ اگر کوئی کام حسب توقع نہ ہو تو اپنے ارد گرد یا  خود پہ انحصار کرنے والے لوگوں کو سائلنٹ ٹریٹمنٹ دینا یا خاموشی کی مار مارنا بھی نرگسیت کے زمرے میں آتا ہے۔

بات سنے اور سمجھے بغیر ہی رد کر دینا بھی ناانصافی ہے اور یہ صرف چھوٹے بچوں کے ساتھ نہیں بلکہ شادی شدہ افراد تک فرمانبرداری کے چکر میں یہ سب سہہ جاتے ہیں۔ موضوع بہت طویل ہے لیکن بات کو سمیٹتے ہوئے ایک واقعہ کہ ایک بابا جی سے کسی نے پوچھا کہ عاقل اور جاہل کی نشانی کیا ہے تو بابے نے مسکراتے ہوئےکہا کہ عاقل کی نشانی یہ ہے کہ جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی ہے، اگلی نسل اپنے مسائل کے حل اور دل کے حال سنانے کے لئے اس کے ارد گرد ڈیرا لگا کر بیٹھنا شروع کر دیتی ہے کیونکہ وہ ایک اچھا سامع ہوتا ہے اور دوسرے کے حالات کے مطابق مشورہ دینے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن جاہل کی علامت یہ ہے کہ اگلی نسل اس سے کنی کترا کر بھاگتی ہے کیونکہ وہ اپنی زبان اور قول سے ان کے دل ایسے چھلنی کرتا ہے، جیسے کسی لکڑی میں لوہے کی کیلیں، جو نکالے جانے کے بعد بھی دیرپا نشان چھوڑ جاتی ہیں۔

برا رویہ یا گھر کا برا ماحول ایک ایسا اضافی بوجھ ہے کہ وہ ہر دم آپ کے کندھوں پر رہتا ہے، آپ اس کو اتار کر کہیں ڈھیر نہیں کر سکتے۔ نوکری پہ اونچ نیچ ہو تو انسان گھر آکر سکون کر لیتا ہے لیکن اگر گھر کے کسی فرد کی وجہ سے گھر گھٹن کا مرکز بن جائے تو کچھ بھی نارمل نہیں رہتا۔

یہ چیز پوری زندگی اور شخصیت پہ حاوی رہتی ہے۔ ہمارے اردگرد  ایسے کردار ہیں اور اب عمر کے اس حصے میں ان کو بدلنا شاید ممکن نہ ہو لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے اندر بھی یہ خامیاں ہیں تو ان کو بدلیں، کہیں یہ آپ کی شخصیت کا خاصا نہ بن جائیں۔