1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گھریلو تشدد سے چھٹکارے کے لیے اختیار خواتین

17 جنوری 2019

گھریلو تشدد کے متاثرین عموماﹰ دستیاب وسائل سے ناواقف ہوتے ہیں۔ مراکش میں ایک نیا منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت خواتین کو شوہروں کے تشدد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے مدد دی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3BhPf
Frauen in Ägypten
تصویر: Mona Al Akad

تدریس کے شعبے سے وابستہ 23 سالہ سلمیٰ دو بچوں کی والدہ ہیں۔ سلمیٰ اپنی شادی کے وہ سات برس کبھی نہیں بھلا سکتیں، جس میں انہیں کئی مرتبہ شدید نوعیت کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران شوہر کی جانب سے انہیں جنسی زیادتی تک کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شوہر انہیں پیٹتا تھا اور قتل تک کی دھمکیاں دیتا تھا۔ ان کا چہرہ ہر وقت سُوجا رہتا تھا، وہ نشے کی عادی ہو گئی تھیں اور ان کا شوہر نشے کے ذریعے انہیں کنٹرول کرتا تھا۔ ایسی حالت میں سلمیٰ طلاق کی طاقت تک نہیں رکھتیں تھیں۔ سلمیٰ کے مطابق، ’’گھریلو تشدد کسی خاتون کی تکریم تک ختم کر دیتا ہے۔‘‘

پول ڈانس سے مصری خواتین کس طرح با اختیار بن رہی ہیں؟

افغانستان: خواتین کو آگے لانے کی کوششوں کے خلاف سخت مزاحمت

پھر ایک دن سلمیٰ نے اپنی خاموشی توڑ دی اور ایک ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے اپنی کہانی سب کو بتا دی۔ یہ ریڈیو اسٹیشن ’میک یور وائس ہرڈ‘ یا ’اپنی آواز سنا دو‘ نامی تنظیم کے ساتھ کام کرتا ہے۔ مراکش میں خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے جاری کئی منصوبوں میں سے یہ ایک منصوبہ ہے۔

گو کہ مراکش میں خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں، تاہم شوہروں کے ہاتھوں جنسی ریادتی کا نشانہ بننے والی خواتین عمومی طور پر اب بھی اپنی داستان کسی کو نہیں بتا سکتیں، کیوں کہ مراکشی معاشرے میں یہ معاملہ اب بھی ’ناقابل بیان‘ شے ہے۔

ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے سلمیٰ کی کہانی عوام تک پہنچی اور گھریلو تشدد کے خلاف کام کرنے والی تنظیم نے ان کی نفسیاتی اور قانونی مدد کی۔ اس سے سلمیٰ کو یہ حوصلہ ملا کہ انہوں نے اپنے شوہر سے طلاق حاصل کی اور  شوہر خلاف جنسی زیادتی کا مقدمہ قائم کیا گیا۔

یورومیڈیٹیرینین فاؤنڈیشن آف سپورٹ ٹو ہیومن رائٹس ڈیفینڈرز نامی منصوبے کے ذریعے گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو عوامی سطح پر اپنی کہانی بیان کرنے اور ان خواتین کی قانونی اور طبی مدد کرنے جیسے امور انجام دیے جاتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت خواتین کو قانونی آپشنز مہیا کر کے بااختیار بنایا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنا تحفظ کر سکیں۔ یہ منصوبہ خواتین کو گھریلو تشدد کی صورت میں عوامی سطح پر اس تشدد یا ہراسانی کی داستان بیان کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

اس منصوبے کی بانی خدیجہ خافض کے مطابق، ’’اب تک 120 سے زائد خواتین ہمارے سینمارز میں حصہ لے چکیں ہیں۔‘‘

ان سیمنارز کی مدد سے خواتین کو قانونی امور سمجھائے جاتے ہیں اور گھریلو تشدد کے انسداد کے حوالے سے شعور و آگہی فراہم کی جاتی ہے، تاکہ وہ اپنا تحفظ یقینی بنا سکیں۔

فاطمہ اظہرہ عوازیوز، ع ت، ع الف