1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خواتین صحافیوں کو پلاننگ کے ذریعے ٹارگٹ کیا جاتا ہے‘

بینش جاوید
13 اگست 2020

پاکستان میں خواتین صحافیوں نے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا ہے کہ انہیں سوشل میڈیا پر بدنام کرنے کی مہم کا سامنا ہے، جس کے پیچھے بظاہر پی ٹی آئی حکومت کے لوگوں کا ہاتھ ہے۔

https://p.dw.com/p/3gtS4
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warnecke

تقریباﹰ پچاس خواتین صحافیوں کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں جنسی تشدد کی سنگین دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں جو خواتین صحافیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

صحافی بے نظیر شاہ  نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' ہم نے گزشتہ کچھ ماہ میں اس بات کا جائزہ لیا کہ خواتین صحافیوں کو بعض مخصوص سرکاری عہدیداروں اور ٹوئٹر اکاؤنٹس کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے  فیصلہ کیا کہ اب ہمیں مل کر اس کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔‘‘

بے نظیر کا کہنا ہے کہ  خواتین صحافیوں کی کردار کشی کی جاتی ہے اور ان پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے پیسے لینے اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا الزام لگایا جاتا ہے: '' ہمارے لیے تنقید مسئلہ نہیں۔ لیکن کیا حکومتی ترجمانوں کے خواتین صحافیوں پر رشوت لینے کے الزمات لگانا درست ہے؟‘‘

صباحت خان گزشتہ دس سالوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، کہتی ہیں،'' سوشل میڈیا پر مجھے بہت سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اسلام سے متعلق ایک بلاگ لکھا جس کے بعد مجھے سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور مجھے ذاتی طور پر بہت نازیبا قسم کے پیغامات بھیجے گئے۔‘‘

بے نظیر شاہ نے کہا کہ خواتین صحافیوں کو  باقاعدہ پلاننگ کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔''ٹوئٹر پر ہماری شکایتوں کا  وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے  نوٹس تو لیا ہے لیکن ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ خواتین صحافیوں سے ملیں گی اور ان کی شکایات کا ازالہ کریں گی۔‘‘