1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبرپختونخوا: زیادہ تر خواتین امراض نسواں کے مسائل سے لاعلم

فریداللہ خان، پشاور
27 اپریل 2024

ہبود آبادی خیبر پختونخوا کے اعداد وشمار کے مطابق ہر سال میں 1900 خواتین زچگی کے دوران موت کے منہ چلی جاتی ہیں جبکہ ایک ہزار میں سے 53 نوزائیدہ ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل مرہی جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4fFw2
BdTD | Pakistan
تصویر: Abdul Majeed/AFP

صوبہ خیبر پختونخوا کے حکام کا کہنا ہے کہ تقریبا 2 لاکھ 36 ہزار خواتین بہبود آبادی کے منصوبوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں جبکہ محکمہ فیملی پلاننگ  کی کوششوں کی وجہ سے سال رواں  120 خواتین کو دوران زچگی موت سے بچایا۔

تاہم خواتین کی اکثریت کے لیے زچگی کی سہولیات کا فقدان ہے۔ بہبود آبادی خیبر پختونخوا کے اعداد وشمار کے مطابق ہر سال میں 1900 خواتین زچگی کے دوران موت کے منہ چلی جاتی ہیں۔

محکمہ بہبود آبادی نے گزشتہ دو سال کے دوران 1143 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تربیت فراہم کی ہے، جو گھر گھر آگاہی مہم چلاتی ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں جہاں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے، وہاں خواتین کو امراض نسواں کے علاج معالجے کے لیے مواقع اور مستند ڈاکٹروں تک رسائی میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔

صوبے میں محدود تعداد میں سرکاری سطح پر میٹرنٹی ہسپتالوں کی وجہ سے حاملہ خواتین کو معائنے کے لیے  طویل انتظار کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر خواتین نجی کلینکس سے رابطہ کرتی ہیں۔

'سی سیکشن‘ نجی ہسپتالوں کا منافع بخش کاروبار

زچگی کے دوران اموات: حیران کن حد تک خطرناک

’نیم حکیم خطرہ جان‘

ایسے میں غریب خواتین غیر مستند ہیلتھ ورکرز اور دائیوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔ پشاور میں آئے روز ایسے کیسز سامنے آتے ہیں، جن میں غیر مستند ہیلتھ ورکرز کی وجہ سے زچہ و بچہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

محکمہ صحت کے ڈاکٹر طاہرہ (فرضی نام ) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پختونخوا کے شہری علاقوں 42  فیصد سے زیادہ خواتین کو جبکہ دیہی علاقوں اور قبائلی اضلاع میں 92 فیصد سے زیادہ خواتین کو ماہر نسواں تک رسائی نہیں۔ روایتی پختون معاشرے میں  خواتین مرد ڈاکٹر سے مشورے کی بجائے گھریلو خواتین سے مشورے لیتی ہیں۔‘‘

بلوچستان میں دوران زچگی اموات کی شرح بلند کيوں؟

انہوں نے مزید کہا، ''دیہی علاقوں میں ان پڑھ اور ناتجربہ کارعمر رسیدہ گھریلو خواتین سے مشورے لیے جاتے ہیں اور زیادہ تر یہ نیم حکیم خواتین زچگی کے کیسز بھی نمٹاتی ہیں لیکن جب کیس خراب ہو جاتا ہے تو پھر پھر انہیں ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے۔‘‘

اس خاتون ڈاکٹر نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبے میں میٹرنٹی ہسپتالوں کی کمی ہے جبکہ بڑے ہسپتالوں میں بے پناہ رش کی وجہ سے مریضوں کو لمبی تاریخ دی جاتی ہے۔

نجی کلینکس میں غیر تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر طاہرہ نے کہا کہ یہ محکمہ صحت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی زندگی سے کھیلنے والوں کے خلاف موثر کارروائی کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دیہی علاقوں اور خاص کر قبائلی اضلاع میں لیڈی ڈاکٹر اور زچہ بچہ سینٹر نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ وہاں آگاہی مہم چلانے میں بھی مشکلات ہیں۔

 غیر قانونی ڈیلیوری سینٹرز

سرکاری ہسپتالوں اور میٹرنٹی ہومز میں خواتین ڈاکٹرز شدید دباؤ میں کام کر رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا نے آگاہی مہم چلانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی خدمات حاصل کی ہیں، لیکن دیہی علاقوں میں یہ مہم کامیاب نہ ہوسکی ہے۔

محکمہ بہبود آبادی خیبر پختونخوا کی ڈائریکٹر ڈاکٹر فارینہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صوبے میں 804 آگاہی مراکز کام کر رہے ہیں، جہاں مشاورت کے ساتھ حاملہ خواتین کو ادویات وغیرہ بھی فراہم کی جاتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت 120 مراکز کھولنا چاہتی ہے لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے اس پر کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پختونخوا میں  ایک ہزار میں سے 53 نوزائیدہ بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل مرجاتے ہیں۔

نومولود پاکستانی بچوں میں شرح اموات: مناسب نگہداشت ہر بچے کا بنیادی حق

'ہر دو گھنٹے بعد ایک ہلاکت': افغان خواتین کے لیے زچگی زندگی اور موت کی جنگ

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق صوبے میں پانچ سال کےعمر کے تئیس فیصد بچے کم خوراکی کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر فارینہ کا کہنا تھا کہ دو سال کے دوران ادارے نے 1143 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تربیت فراہم کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں 76 ہزار خواتین کو غیر محفوظ اسقاط حمل سے اور 120خواتین کو زچگی کے دوران موت سے بچانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، '' ہم مہینے میں 13 دن فیملی ڈے مناتے ہیں۔ اس دوران تمام مراکز میں ہزاروں خواتین مشورے اور علاج کے لیے آتی ہیں اور انہیں دستیاب ادویات اور کانٹرا سیپٹیوز مفت فراہم کی جاتی ہیں۔‘‘

لیڈی ڈاکٹر دیہی مراکز میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں

خیبر پختونخوا کے مخصوص حالات اور امن و امان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے خواتین ڈاکٹرز، گائینا کالوجسٹ اور ہیلتھ ورکرز دیہی علاقوں بالخصوص قبائلی اضلاع میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

خیبر پختونخوا کے دیہی اور پہاڑی علاقوں میں خواتین ڈاکٹرز کے لیے مراعات میں وقتا فوقتا اضافہ کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود خواتین ڈاکٹرز سرکاری بنیادی مراکز صحت میں کام کرنے سے کتراتی ہیں۔

صوبائی دارالحکومت پشاور میں دو میٹرنیٹی ہسپتال ہیں جبکہ بڑے ہسپتالوں میں چند بستروں پر مشتمل گائینی وارڈز ہوتے ہیں، جہاں پختونخوا سمیت افغانستان سے بھی بڑی تعداد میں مریض آتے ہیں۔

بچہ کھو دینے والی ماؤں کو مدد درکار ہوتی ہے