1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس افغان امن عمل کے دوبارہ آغاز کے لیے کوشاں

21 فروری 2021

کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے۔ جو بائیڈن انتطامیہ نے بھی طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کا از سر نو جائزہ لینے کا عندیہ دے رکھا ہے۔ اس صورتحال میں روس ایک مرتبہ پھر متحرک ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/3pf1y
Russland | Gespräche in Moskau über Waffenruhe in Afghanistan
تصویر: Reuters/S. Karpukhin

افغانستان میں عدم امن اور مصالحتی کوششوں میں رکاوٹوں کے تناظر میں ایک نئی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ روس نے افغان امن عمل کے دوبارہ آغاز کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ روسی حکومت افغان عمل میں مثبت کردار ادا کرنےکی خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں روسی اور افغان مصالحتی وفود کی آمد و رفت جاری ہے جبکہ روس کی جانب سے خطے میں افغان امن کے اہم کرداروں سے رابطے استوار کیے جا رہے ہیں۔

 طالبان تحریک کے سینیئر رہنماؤں کو بھی اس عمل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خصوصی نمائندے ضمیر کابولوف جمعہ انیس فروری کو پاکستان کے دورے پر تھے اور اسلام آباد میں انہوں نے اعلیٰ حکومتی اہلکاروں سے بات چیت کی ہے۔ اسلام آباد افغان تنازعے اور اس کے حل کے سلسلے میں کیے جانے والے تمام اقدامات میں اول دن سے اہمیت رکھتا ہے۔

روسی اعلیٰ عہدیدار کا دورہ پاکستان غیر علانیہ تھا اور انہوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی۔ اس حوالے سے ایک مختصر بیان کے علاوہ زیادہ تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی گئیں اور وہ مختصر بیان یہ تھا کہ ان ملاقاتوں میں افغان امن عمل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

روس کے کردار میں اضافہ

حالیہ کچھ عرصے کے دوران افغان امن عمل میں روس کے کردار میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ بھی طالبان کے ایک وفد نے روس کا دورہ کیا تھا۔ طالبان کا یہ کوئی پہلا دورہ نہیں تھا بلکہ طالبان ماضی میں بھی امن مذاکرات کے مشکل دور میں روس کا دورہ کرتے ہوئے امریکا کو اپنی اہمیت کا اندازہ کروا چکے ہیں۔

Afghanistan Konferenz in Moskau Lawrow
تصویر: Reuters/S. Karpukhin

روس کی طرف سے ان کوششوں کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد انخلاء کے بتیس برس مکمل ہو رہے ہیں۔ اس وقت افغان طالبان روس کے خلاف تھے اور ان کا مدد گار امریکا تھا۔ اب صورتحال اس کے برعکس ہے، اب دشمن امریکا ہے اور روس طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تاہم روسی عہدیدار کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک بیانمیں کہا ہےکہ دونوں ممالک افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے کوشاں ہیں۔

گزشتہ جمعرات کو روسی وزارت خارجہ کی ایک خاتون ترجمان ماریا زخاروف نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمار آئندہ ہفتے ماسکو کا دورہ کریں گے۔ ماریا زخاروف کا مزید کہنا تھا کہ روس افغانستان میں قومی مصالحتی عمل اور فوجی تنازعے کے خاتمے کے لیے خصوصی کوششیں کر رہا ہے۔

امریکی جنرل کا دورہ

اس سلسلے میں امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینیتھ ایف میکینزی کے دورے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد کے دورے کے دوران امریکی جنرل نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے۔ اس میٹنگ کے بعد جاری ہونے والا بیان بظاہر مبہم قرار دیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس میٹنگ کے ایجنڈے پر بھی افغانستان کے حالات ہی سرفہرست تھے۔

مغربی اتحاد کو مشکل صورت حال کا سامنا

دوسری جانب مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رواں ہفتے ختم ہونے والی کانفرنس میں بھی افغانستان کی مشکل صورت حال کے بارے میں بظاہر کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا میں حکومت کی تبدیلی اور ٹرمپ انتظامیہ کی جگہ جو بائیڈن کے منصبِ صدارت پر بیٹھنے سے امن عمل کی مجموعی صورت حال تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔

ا ا / ک م  (اے ایف پی، روئٹرز)