1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا مسلمان، تین سا ل بعد بھی کیمپوں میں رہنے پر مجبور

21 اگست 2020

میانمار سے جان بچاکر بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان تین سال بعد بھی خستہ حال کیمپوں میں رہنے کے لیے مجبورہیں، جہاں اب انہیں کورونا وائرس کی وبا کا خطرہ بھی لاحق ہے۔

https://p.dw.com/p/3hHWN
BG Pink Lady Food Photographer of the Year 2020 | K M Asad
تصویر: K M Asad

میانمار کی فوج کی کارروائیوں سے جان بچاکر بنگلہ دیش آنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کے مصائب کا اس ماہ تیسرا سال مکمل ہورہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (اے آر ایس اے) سے وابستہ مسلم شدت پسندوں نے 25 اگست کو میانمار کی شمالی راکھین ریاست میں 30 پولیس چوکیوں پر حملے کردیے تھے۔ اس وقت میانمار حکومت اور فوج نے کہا تھا کہ ان حملوں میں 12سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

 اس واقعے کے بعد بودھ اکثریتی ملک میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی شروع کردی۔  ان فوجی کارروائیوں کی وجہ سے سات لاکھ 30 ہزارسے زائد روہنگیا مسلمان اپنی جان بچانے کے لیے پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کرگئے۔ راکھین سے جان بچا کر بھاگنے والے کچھ روہنگیا مسلمان ملائشیا اور انڈونیشیا کی طرف بھی چلے گئے۔

حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ میانمار حکومت نے کم از کم 55 روہنگیا گاوں کو زمین بوس کردیا جہاں سے لوگ اپنی جان بچانے کے لیے دوسری جگہ چلے گئے تھے۔  ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ جہاں کبھی مکانات اورمساجد تھے وہاں میانمار کی فوج اپنے ٹھکانے تعمیر کررہی ہے۔

میانمار کی فوج نے عالمی ردعمل کے بعد شہریوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی جانچ کے لیے ایک فوجی عدالت قائم کی تھی تاہم میانمار کی رہنما آنگ سان سوکی نے ہیگ کی عالمی عدالت کے سامنے کہا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے الزامات 'جھوٹے او رگمراہ کن ہیں۔‘

بنگلہ دیش میں پہلے ہی تشدد کا شکار دو لاکھ روہنگیا مسلمان پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے تھے اور2017 کے بعد مزید تین لاکھ 70 ہزار افراد وہاں پہنچ گئے۔ جہاں وہ پچھلے تین برسوں سے مختلف کیمپوں میں رہنے کے لیے مجبور ہیں۔ ان کیمپوں کی حالت انتہائی خستہ بتائی جاتی ہے اور ان میں بنیادی سہولتوں کا بھی فقدان ہے۔

اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے تاہم بعد میں پایا کہ میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کی 'نسل کشی کے مقصد‘ سے یہ فوجی کارروائی کی تھی۔  میانمار تاہم اس الزام سے انکار کرتا رہا ہے اور اس کی دلیل ہے کہ فوج انتہاپسندوں کا مقابلہ کررہی تھی۔

کیمپوں میں ابتر صورت حال

بنگلہ دیش کے کاکس بازارعلاقے میں سب سے زیادہ تعداد میں روہنگیا مسلمان رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں سے متعلق ایجنسی (یو این ایچ آر سی)، بنگلہ دیش حکومت اور تارکین وطن کی بین الاقوامی تنظیم کے مطابق صرف پانچ کیمپوں میں تقریباً دس لاکھ روہنگیا مسلمان رہ رہے ہیں۔  مہاجرین میں نصف سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے اور مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین کو اقو ام متحدہ کی ایجنسیوں، غیر سرکاری تنظیمیں اور بنگلہ دیش حکومت کھانے پینے، صحت کی دیکھ بھال اور کمیونٹی ٹوائیلٹ اور پینے کا پانی جیسی دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرتی ہے۔

کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین کیمپوں سے باہر جاکر کام نہیں کرسکتے۔ انہیں کیمپوں سے کسی ضرورت کے لیے بھی باہر جانے کے لیے حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ بنگلہ دیش حکومت نے گزشتہ برس قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے کیمپوں میں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سروس پر روک لگاد ی تھی۔ اسی برس جنوری میں بنگلہ دیش کی حکومت نے 14 برس تک کی عمر والے بچوں کے لیے رسمی تعلیم کی منظوری دی تھی۔  بچے میانمار کے اسکولی نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ 14 برس سے زیادہ عمر کے بچوں کو ووکیشنل ٹریننگ دینے کی بات کہی گئی تھی۔

کورونا کا خطرہ

روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں میں کورونا وائرس کی وبا کا بھی خطرہ لاحق ہے۔ بھیڑ بھاڑ والے کیمپوں میں سوشل ڈسٹنسنگ اور صفائی ستھرائی بہت مشکل ہے۔ 14مئی کو کیمپوں میں کورونا وائرس کا پہلا معاملہ سامنے آیا تھا۔  کووڈ۔19سے کیمپوں میں اب تک چھ لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔

روہنگیا مہاجرین کی وطن واپسی کے سلسلے میں بنگلہ دیش اور میانمار حکومت کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا تھا لیکن انہیں واپس بھیجنے کا عمل ناکام ہو چکا ہے کیوں کہ روہنگیا مسلمانوں کو خوف ہے کہ اگر وہ اپنے وطن واپس گئے تو ان کے ساتھ مزید تشدد کیا جاسکتا ہے۔

ج ا /  ص ز (روئٹرز)

روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں کورونا وائرس پھیلنےکا خوف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں