1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ريپ کا جنگی ہتھيار کے طور پر استعمال بند ہونا چاہيے‘

19 اکتوبر 2018

رواں سال نوبل امن انعام کے حق دار قرار پانے والے کانگو کے ڈاکٹر ڈينس مُک ويگے نے جنگوں اور مسلح تنازعات ميں جنسی زيادتی کو ہتھيار کے طور پر استعمال کيے جانے کے عمل کی روک تھام پر زور ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/36puj
Indien Pakistan Symbolbild Vergewaltigung
تصویر: picture alliance / AA

ڈينس مُک ويگے نے مسلح تنازعات ميں جنسی زيادتی و ديگر جنسی جرائم کی روک تھام کا مطالبہ کيا ہے۔ کانگو سے تعلق رکھنے والے اس ڈاکٹر نے يہ بات تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن کو ديے اپنے ايک انٹرويو ميں کہی، جو اٹھارہ اکتوبر کو جاری کيا گيا۔ مُک ويگے کے مطابق اس مسئلے سے سب سے زيادہ متاثرہ ملکوں ميں جنگوں ميں جنسی جرائم کے ارتکاب کرنے والوں کے ليے اب بھی استثنٰی کا ايک باقاعدہ نظام موجود ہے۔

ڈينس مُک ويگے کو اس سال نوبل امن انعام کا مشترکہ حق دار قرار ديا گيا تھا۔ ان کے ساتھ دہشت گرد نيٹ ورک اسلامک اسٹيٹ کے جنسی جرائم سے متاثرہ اور اس سلسلے ميں مزاحمت کی علامت بننے والی ايزدی لڑکی ناديہ مراد کو اس اعزاز سے نوازا گيا۔ تريسٹھ سالہ  مُک ويگے نے سن 1999 ميں پانزی ہسپتال کی بنياد رکھی، جس کا مقصد مشرقی کانگو ميں مسلح تنازعے کے دوران جنسی زيادتی کا شکار بننے والی لڑکيوں اور عورتوں کا علاج اور ان کی مدد تھا۔ ڈاکٹر  مُک ويگے نے جنسی جرائم سے متاثرہ سينکڑوں لڑکيوں کی سرجری کی ہے۔ علاوہ ازيں وہ ان کی حالت زار کی بارے ميں آگہی پھيلانے اور انہيں طبی و نفسياتی مدد فراہم کرنے ميں بھی پيش پيش رہے ہيں۔

ڈينس مک ويگے اور ناديہ مراد، رواں سال نوبل امن انعام کے مشترکہ حقدار
ڈينس مک ويگے اور ناديہ مراد، رواں سال نوبل امن انعام کے مشترکہ حقدار

جنسی زيادتی کا جرم در اصل 1919ء سے جنگی جرائم کے زمرے ميں آتا ہے تاہم اس پر پراسيکيوشن سن 1997 ميں اس وقت شروع ہوئی، جب افريقی ملک روانڈا کے ايک چھوٹے سے شہر کے ميئر ژاں پال اکاسيو پر روانڈا ميں 1994ء کی نسل کشی مہم ميں ان کے کردار کے سبب انٹرنيشنل کرمنل کورٹ ميں مقدمہ چلايا گيا۔ آئی سی سی نے جنگوں ميں ريپ پر پہلی مرتبہ سن 2016 ميں کانگو کے ژاں پيئر بيمبا کو سزا سنائی۔ انہيں وسطی افريقی جمہوريہ ميں جنسی زيادتيوں اور قتل عام کی ايک باقاعدہ مہم چلانے پر مجرم قرار ديا گيا۔ تاہم اس سال جون ميں اس فيصلے کو اپيل کے بعد بدل ديا گيا۔

ڈينس مُک ويگے نے اپنے انٹرويو ميں تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن کو بتايا کہ کانگو ميں اگرچہ فوج کے نظام انصاف ميں بہتری آئی ہے تاہم حکومت اب بھی جنسی جرائم سے متاثرہ افراد کی مدد ميں ناکام ہے۔ نوبل انعام يافتہ اس ڈاکٹر کے بقول بد قسمتی سے آج کل تنازعات کی زد ميں متعدد خطوں ميں جنسی جرائم کرنے والوں کے ليے اٌک طرح کا استثیٰ کا نظام موجود ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے خيال ميں دنيا کو اس بارے ميں واضح طور پر لکير کھينچنی ہو گی تاکہ اس بات کو يقينی بنايا جا سکے کہ مسلح تنازعات ميں جنسی جرائم پر مکمل پابندی عائد ہو۔‘‘

ع س / ع ت، تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن