1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریپ ریپ ہے، زور زبردستی نہ  بھی ہو، سوئیڈن میں نیا قانون

24 مئی 2018

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے یکم جولائی سے نافذ ہونے والے اس نئے قانون کو سراہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2yGk4
Indien Kaschmir Vergewaltigung und Tod einer Achtjährigen
تصویر: Reuters/

سوئیڈن کی پارلیمان میں ایک نیا قانونی بل پاس کیا گیا ہے جس کے مطابق کسی کی اجازت کے بغیر اس سے جنسی عمل ریپ کے زمرے میں آئے گا بھلے اس میں زور زبردستی یا دھمکانے کا عنصر شامل نہ بھی ہو۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق سویڈن کی پارلیمان کی طرف سے منظور کیا جانے والا یہ قانون یکم جولائی سے نافذ العمل ہو گا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس نئے قانون کو سراہا ہے۔ یہ قانون دراصل پہلے سے نافذ شدہ قانون کی تبدیل شدہ شکل ہے جس کے مطابق جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے کو یہ ثابت کرنا ہوتا تھا کہ زیادتی کرنے والے نے طاقت کا استعمال کیا تھا یا یہ کہ متاثرہ فرد کسی ایسی صورتحال میں تھا کہ وہ اپنا دفاع کرنے سے قاصر تھا مثلاﹰ الکوحل وغیرہ کے اثر میں۔

Vergewaltigungsopfer in Großbritannien
تصویر: Chase Carter

جنسی زیادتیوں کے نو ماہ، روہنگیا خواتین مائیں بننے لگیں

گینگ ریپ کے ملزموں کی بریت: اسپین میں مظاہرے

تاہم اب اس نئے قانون کے مطابق یہ ضروری ہے کہ جسمانی تعلق قائم کرنے سے پہلے کسی شخص کی طرف سے لفظی اجازت یا جسمانی سکنات کے ذریعے اپنی مرضی کا اظہار یا اقرار کیا جانا ضروری ہے۔

سوئیڈن کی پارلیمان میں اس قانون کو بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا۔ اس قانون کے حق میں 257 ووٹ پڑے جبکہ اس کی مخالفت میں صرف 38 ووٹ آئے۔

سوئیڈن کی حکومت کے مطابق اس قانون کی مدد سے جنسی زیادتی کے مرتکب افراد پر زیادہ مؤثر انداز سے فرد جرم عائد کی جا سکے گی۔ اس قانون میں دو نئی شقوں کا بھی اضافہ کیا گیا ہے جن کے تحت غیر محتاط جنسی رویہ اور ریپ کے جرم میں چار سال قید تک کی سزا بھی دی جا سکے گی۔

سوئس حکومت کے مطابق یہ نیا قانون ملک میں بڑھتے ہوئےجنسی جرائم سے نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے معتارف کروایا گیا ہے۔

ع ف ا ب ا (ڈی پی اے، رائٹرز)