1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’زندہ بھاگ‘، پاکستانی فلمی صنعت کے احیاء کی ایک اور کوشش

14 ستمبر 2012

بھارتی اور پاکستانی نوجوان فلمسازوں کی فلم ’زندہ بھاگ‘ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پاکستانی سنیما گھروں میں ایک مرتبہ پھر سے رونق لانے کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کرے گی۔

https://p.dw.com/p/169Ek
تصویر: Mazhar Zaidi

اس فلم میں بالی ووڈ کے معروف اور مایہ ناز اداکار نصیر الدین شاہ مرکزی کردار میں جلوہ افروز ہو رہے ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی میڈیا میں اس فلم کے بارے میں کافی چرچا ہو رہا ہے۔ دسمبر میں سنیما گھروں میں ریلیز کی جانے والی یہ فلم اردو اور پنجابی زبان میں بنائی گئی ہے۔ اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ لاہور میں کی گئی ہے۔

اس فلم میں ہدایتکاری کے جوہر ایک پاکستانی فلم میکر فرجاد نبی اور بھارتی فلمساز مینو گور نے دکھائے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مینو گور نے فلم کے کہانی کے بارے میں بتایا،’’ فلم تین لوگوں کی کہانی ہے، جو لاہور کے ایک محلے میں رہتے ہیں اور جیسا کہ آج کل کی یوتھ میں ہے کہ وہ بہت جلد ہی کچھ پانا چاہتی ہے، کامیابی چاہتی ہیں، ہم نے دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ان کی یہ خواہش انہیں کہاں لے کر جاتی ہے اور ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔‘‘

Naseeruddin Shah Schauspieler Bollywood Indien
نصیر الدین شاہتصویر: AP

فلم کے پروڈیوسر مظہر زیدی کہتے ہیں کہ انہوں نے فلم ’زندہ بھاگ‘ میں غیر قانونی تارکین وطن کے سنگین مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں بہت سے نوجوان غیر قانونی طور پر ملک سے بھاگنے کی کوشش میں ہیں اور اکثر اوقات اس کے نتائج کچھ ٹھیک نہیں ہوتے۔

مظہر زیدی کہتے ہیں کہ اس فلم میں تفریح کے ساتھ اس موضوع پر بات کی گئی ہے اور اس میں کوئی لیکچر نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے ایک غیر محسوس طریقے سے ایک پیغام دیا گیا ہے، ’’کہانی میں ایسی وجوہات اور معاشرے کے حالات کی عکاسی کی گئی ہے، جو نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔‘‘

بھارت سے تعلق رکھنے والی ہدایتکار مینو گور نے پاکستان میں فلم صنعت میں ہوتی ہوئی ترقی کے حوالے سے کہا، ’’ مجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان میں اب فلم سازی میں تبدیلیاں آ رہی ہیں کیونکہ اتنے زیادہ فلم اسکول کھل چکے ہیں اور اس حوالے سے پڑھایا لکھایا جاتا ہے تو اب بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی اس فیلڈ میں آ رہے ہیں۔‘‘

اگرچہ پاکستان میں فلمی صنعت کے احیاء کے حوالے سے حکومت کی سرپرستی کو بھی اہم قرار دیا جاتا ہے تاہم مظہر زیدی کے بقول عوام ہی اس صنعت کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستانی فلم انڈسٹری ایک انتہائی اہم موڑ پر ہے کیونکہ پرانی فلم صنعت بہت محدود ہو چکی ہے اور اب کئی نئے لوگ ایک نئی سوچ کے ساتھ فلمسازی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں فلمی صنعت کے احیاء پر تبصرہ کرتے ہوئے مظہر زیدی کہتے ہیں، ’’ اس میں کامیابی نہ تو حکومت کی سپانسرشپ سے ہو گی اور نہ ہی کسی اور چیز سے ہو گی بلکہ صرف لوگوں کی وجہ سے ہو گی۔ اگر لوگ فلمیں پسند کریں گے، فلمیں دیکھنے جائیں گے اور حوصلہ افزائی کریں گے تو نئے فلسماز نئی فلمیں بناتے رہیں گے۔‘‘

پاکستان کے روایتی سنیما میں ایک سنجیدہ موضوع پر بنائی گئی فلم کیا کامیاب ہو سکے گی؟ اس پر بات کرتے ہوئے  ’زندہ بھاگ‘ کے پاکستانی ڈائریکٹر فرجاد نبی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’فلم کا موضوع سننے میں خشک ہے لیکن دیکھنے میں بہت تر ہے اور چکھنےمیں بہت مصالحے دار ‘‘۔

Pakistan Lahore German Film Festival
اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ لاہور میں کی گئی ہےتصویر: DW

فرجاد نبی نے مزید بتایا،’’ ہم نے یہ فلم اپنی مقامی روایت کے مطابق بنائی ہے۔ ہم نے اپنی سوچ میں جدت پیدا کی ہے لیکن فلم سازی میں وہی تکنیک استعمال کی ہے، جو پاکستان اور بھارت میں رائج  ہے۔ ہم بہت فخر سے کہتے ہیں کہ اس سنجیدہ فلم میں گانے بھی ہیں، ڈانس بھی ہے اور مزاح بھی ہے۔‘‘ فرجاد کہتے ہیں کہ وہ  ایسی فلم نہیں بنانا چاہتے تھے، جو صرف فیسٹیولز میں چل کر ختم ہو جائے بلکہ ان کا مقصد ہے کہ یہ فلم وسیع تر ناظرین تک پہنچے۔

فرجاد نبی کے مطابق فلم کی تمام ٹیم کو نصیر الدین شاہ کے ساتھ کام کرنے کا بہت لطف آیا، ’’گھبرائے تو ہم سبھی ہوئے تھے کیونکہ وہ اتنے بڑے اسٹار ہیں لیکن جس نرمی اور فراخدلی کے ساتھ انہوں نے اپنا علم ہم سب کے ساتھ شیئر کیا، اس سے کچھ دنوں میں ہی ہمیں یوں محسوس ہونے لگا کہ وہ ہمارے ہی گھر کے ایک فرد ہیں۔‘‘

فرجاد کے بقول نصیر الدین شاہ ایک بڑے اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے استاد بھی ہیں کیونکہ اس فلم کی تیاری کے دوران انہوں نے سب کو بہت کچھ سکھایا بھی۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید