1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سارا سینڈرز بھی جا رہی ہیں، ٹرمپ کو نئے ترجمان کی تلاش

14 جون 2019

سینڈرز طویل عرصے تک اس منصب پر فائز رہیں۔ انہوں نے اپنے ’باس‘ کے لیے غلط بیانی کی اور صحافیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کیا۔تاہم اب وہ صدر ٹرمپ کے مزید ترجمانی نہیں کریں گی۔

https://p.dw.com/p/3KP5e
Sarah Sanders Trump PK Sprecherin
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Olivier

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں پیغام رسانی کی اپنی پسندیدہ ویب سائٹ ٹویٹر کے ذریعے اعلان کیا کہ جون کے بعد سارا سینڈرز ان کی ترجمان نہیں رہیں گی۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ سینڈرز کا جانشین کون ہو گا۔ اس مرتبہ صورتحال کچھ مختلف اس وجہ سے بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیم میں ہونے والی سابقہ تبدیلیوں کے برخلاف سارہ سینڈرز کی تعریف میں پل باندھ دیے۔

USA Donald Trump
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin

انہوں نے کہا کہ وہ ایک غیر معمولی صلاحیتوں والی خاتون ہیں اور انہوں نے اپنی ذمہ داریاں اس عمدہ طریقے سے نبھائیں ہیں، جسے بیان نہیں کیا جا سکتا،'' سارا بہت بہت شکریہ ، آپ نے اپنا کام بہت احسن انداز میں کیا ہے۔‘‘

اس موقع پر ٹرمپ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سارا سینڈرز اپنی آبائی ریاست آرکنساس کے گورنر کے عہدے کے الیکشن میں حصہ لیں گی۔ 36 سالہ سینڈرز نے کہا، ''انہیں فخر ہے کہ انہوں نے اپنے ملک اور اس کے سربراہ کے لیے کام کیا ہے۔ مجھے مشکل لمحات نے بھی پریشان نہیں کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اب اپنے تین بچوں کے ساتھ زیادہ وقت صرف کر سکوں گی۔‘‘

سارا سینڈرز کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے پیشرو کے مقابلے میں زیادہ صدر کے ترجمان کے طور پر عرصے تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ریپبلکن سیاستدان مائیک ہک کیبی کی بیٹی سارا نے انتہائی ہنگامہ خیر حالات میں جولائی 2017ء میں یہ ذمہ داری لی تھی۔ وہ انتخابی مہم میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ تھیں۔

 مبصرین تنقید کر رہے ہیں کہ '' خاتون ترجمان‘‘ نے صدر کو خوش کرنے کے لیے بہت سے بیانات دیے اور کم وضاحتیں بھی کی۔ اسی طرح واشنگٹن میں صحافیوں کو روزانہ کی بنیاد پر دی جانے والی حکومتی سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کرنے کا سلسلہ بھی باقاعدگی سے منقعد نہیں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ وائٹ ہاؤس کے سینئر صحافیوں نے یہ شکایت بھی کی کہ حکومت کے ناقد اداروں کے صحافیوں کو اکثر پریس کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی نہیں دی جاتی تھی۔

خواتین اول، ٹرمپ کے خلاف متحد