1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

ستمبر گیارہ کے بیس برس بعد: جرمن مسلمان انتہا پسندوں کا حال

4 ستمبر 2021

جرمن پولیس کو خدشہ ہے کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر مسلمان جہادیوں بشمول جرمن انتہاپسندوں کا گڑھ بن سکتا ہے۔ ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کے بیس برس بعد افغانستان میں پھر طالبان کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3zurs
Deutschland Polizei Terrorverdächtiger 2016
تصویر: picture alliance/dpa/P. Zinken

بیس برس قبل مسلمان دہشت گردوں نے مسافر بردار ہوائی جہازوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کر کے چند امریکی عمارتوں کا نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورز منہدم ہو گئے اور قریب تین ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ بیس برس قبل جرمن سکیورٹی حکام کے لیے مسلمان جہادیوں کی سرگرمیاں بڑی حد تک غیر معروف تھیں۔

افغانستان سےغیر ملکی افواج کا انخلا:جہادی سراُٹھا سکتے ہیں، ماہرین کا انتباہ

بیس برس قبل، آج کا جرمنی اور مسلم دہشت گردی

ایک سینیئر جرمن پولیس افسر سَون کورینباخ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیس برس قبل فیڈرل کریمینل پولیس آفس (BKA) میں ایک درجن پولیس اہلکار ساری صورت حال کے لیے مقرر تھے۔

Deutschland Sven Kurenbach Kriminaldirektor BKA
سن 2019 میں سَون کورینباخ کو بی کے اے میں ایک انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ایک نئے شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا ہےتصویر: DW

سن 2019 میں سَون کورینباخ کو بی کے اے میں ایک انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ایک نئے شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اب اس نئے تفتیشی شعبے میں قریب پانچ سو تفتیش کار، سائنسدان، مترجم اور تجزیہ کار متعین ہیں جو مسلمان جہادیوں کی نگرانی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ اہلکار انتہائی خطرناک انتہا پسندوں کی خاص طور نگرانی بھی کر رہے ہیں اور انہیں کسی بھی ممکنہ حملے سے روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جرمنی میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے چندہ جمع کرنے والے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔

دہشت گردی کی سرپرست امارات افغانستان!

اعلیٰ جرمن پولیس اہلکار سَون کورینباخ کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کے بیس برسوں بعد افغانستان میں طالبان کے لہراتے جھنڈے پر پریشانی لاحق ہے۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے مزید بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ فکرمند ہیں کہ کہیں طالبان مختلف قسم کی دہشت گرد تنظیموں کو اپنے علاقوں میں برداشت کرنا شروع نہ کر دیں اور پھر سے ان کے علاقوں میں جہادیوں کے تربیتی کیمپ بھی قائم نہ ہو جائیں۔

چار ’دہشت گرد جنگجو‘ جرمنی ڈیپورٹ کر دیے، ترکی

کورینباخ کے یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے افراد پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پہلے سے موجود ہیں اور اس کا خطرہ بڑھ گیا ہے کہ اور ممالک سے بھی انتہا پسند طالبان کے ملک کا رخ کر سکتے ہیں۔

Deutschland Berlin Gedenken Opfer Anschlag Breitscheidplatz
انیس دسمبر سن 2019 میں برلن کی کرسمس مارکیٹ پر جہادی دہشت گردانہ حملہ انتہائی ہولناک اور خونی تھاتصویر: Getty Images/S. Gallup

مسلم انتہا پسندوں کا پراپیگنڈا

سَون کورینباخ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ایک جرمن جہادی تنظیم  'ڈوئچے طالبان مجاہدین‘ کا بھی حوالہ دیا جو اب تک بڑی حد تک خبروں سے غائب ہو چکی ہے لیکن ان کا ویڈیو پراپیگنڈا پھر سے شروع ہو گیا ہے کہ وہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں جمع ہو رہے ہیں۔

مسلم جہادی معاملات کے ایک اور ماہر کرسٹین ایپرٹ کا کہنا ہے کہ مختلف جرمن انتہا پسند گروپوں نے افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں اپنے مقصد کا پراپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ ایپرٹ کے مطابق کابل پر طالبان کے قبضے کو جرمنی میں موجود انتہاپسند مسلمانوں نے اپنے لیے ایک تحفہ قرار دیا ہے۔ شام میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے زوال کے بعد ان انتہا پسندوں نے ایک مرتبہ پھر 'اسلام کی فتح‘ کی گفتگو شروع کر دی ہے۔

ایک ہزار سے زائد خطرناک افراد

خطرناک شخص کی اصطلاح کسی حد تک مبہم محسوس ہوتی ہے لیکن جرمن پولیس کے نزدیک 'خطرناک شخص‘ سے مراد وہ فرد ہے جو کسی بھی وقت دہشت گردانہ کارروائی یا فعل کا ارتکاب کر سکتا ہے۔

Deutschland Prozess gegen Sauerland-Gruppe
جرمن میں پیدا ہونے والے ’ساؤرلینڈ‘ جہادیوں کا ایک گروپ عدالت میں آپسی گفتگو میں مصروفتصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں مسلم دہشت گردی کے حوالے سے پانچ سو چون افراد انتہائی خطرناک افراد میں شمار کیے گئے ہیں۔ ان میں نوے اس وقت پولیس کی تحویل میں ہیں اور ایک سو چھتیس یورپی ممالک کے باہر مقیم ہیں۔ ان میں سے بیشتر شمالی شام کے شہر ادلب میں ہیں جو اب بھی جہادیوں کا ایک مضبوط گڑھ ہے۔

جرمنی نے داعش کی رکن خاتون کی واپسی کی منظوری دے دی

دسمبر سن 2019 کے بعد سے جرمنی میں خطرناک افراد کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ قریب دو برس قبل ان کی تعداد چھ سو اناسی تھی جو اب کم ہو کر پانچ سو چون ہو گئی ہے۔ ان کے علاوہ پانچ سو ستائیس دوسرے افراد بھی ہیں، جنہیں خطرناک افراد کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے اور ان کے حوالے سے پولیس کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ یہ لوگ خطرناک افراد کے حلقے میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی ڈھکے چھپے انداز میں حمایت کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جرمن زبان سے ترجمہ شدہ

 ماتھیاس فان ہائن (ع ح/ع ت)