1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرحدی تنازعہ کے درمیان بھارت میں شاعرانہ جنگ

جاوید اختر، نئی دہلی
9 جون 2020

بھارت ایک طر ف ابھی تک چین کے ساتھ فوجی محاذ پر تعطل ختم کرنے کا لائحہ عمل تیار کرنے ہی میں مصروف ہے کہ دوسری طرف درون ملک سیاسی محاذ پر شعر وشاعری کی جنگ چھڑگئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3dU6J
Indien Neu Delhi - National Congress Parteipräsident Rahul Gandhi
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

کانگریسی رہنما راہو ل گاندھی کی طرف سے اعلان جنگ کے بعد اس لڑائی میں بھارتی وزیر دفاع سے لے کر اپوزیشن رہنما اور عوام بھی کود پڑے ہیں۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی طرف سے ایک ڈیجیٹل جلسے سے خطاب کے دوران مودی حکومت کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کی تعریف پر اپوزیشن لیڈر کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے پیر کے روز اپنے طنزیہ ٹوئٹ میں مرزا غالب کے ایک شعر میں تصرف کرتے ہوئے جب یہ لکھا تھا”سب کو معلوم ہے ’سرحد‘ کی حقیقت لیکن،  دل کو خوش رکھنے کو ’شاہ۔ ید‘ یہ خیال اچھا ہے“  تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ باضابطہ ایک ’جنگ‘ کی صورت اختیار کرلے گا۔

راہو ل گاندھی کے اس ’حملے‘ کا جواب دینے کے لیے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ فوراً میدان میں کود پڑے۔ انہوں نے بھی ایک ٹوئٹ کیا ”مرزا غالب کا ہی شعر تھوڑا الگ انداز میں ہے...

’ہاتھ‘  میں درد ہے تو دوا کیجے

’ہاتھ‘  ہی جب درد ہو تو کیا کیجے...“

خیال رہے کہ ’ہاتھ‘ کانگریس پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔ لیکن راج ناتھ سنگھ کی لوگوں نے ’کھنچائی‘ کردی اور انہیں مشورہ دیا کہ ہر معاملے میں مرزا غالب کو گھسیٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لوگوں نے انہیں بتایا کہ غالب کے نام پر جو شعر انہوں نے پیش کیا ہے وہ دراصل منظر لکھنوی کی ایک غزل کاہے۔ جس کا مطلع ہے:

’درد ہو دل میں تو دوا کیجے

اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے‘

 جنگ اس وقت مزید شدت اختیار گئی جب کانگریس کے دیگر سپاہی بھی میدان میں اتر آئے۔ کانگریس کے ترجمان اور میڈیا سیل کے سربراہ رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک ٹوئٹ کرکے راج ناتھ سنگھ پر حملہ کرتے ہوئے کہا:

”محترم راج ناتھ سنگھ جی،  سوال پوچھو تو سوال پوچھتے ہیں،  حکومت والے اب زبان پوچھتے ہیں، کچھ بازوئے طاقت تو آزمائیے جناب،  ہم ہندوستان ہیں، لال آنکھ کا انجام پوچھتے ہیں۔ تمام بھارت واسی“

سرجے والا کے علاوہ ریاست چھتیس گڑھ کے کانگریس کے ٹوئٹر ہینڈل سے بھی راج ناتھ پر حملہ کیا گیا۔ ”ایک قابل شخص کا شعر کچھ الگ

 اندا ز میں ہے۔ ’سوالوں‘ کی جانچ ہو تو کیا کیجے‘  'سوال‘ ہی جب آنچ ہو تو ’کڑی نندا‘ (سخت مذمت) کیجے۔“

اس دوران راہول گاندھی نے منگل نو جون کو ایک بار پھر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ پر حملہ کیا، ”ہمارے وزیر دفاع ہاتھ کے انتخابی نشانی پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ کیا وہ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ کیا لداخ میں چین نے بھارتی علاقے پر قبضہ کرلیا ہے؟“

راہول گاندھی پچھلے چند ہفتوں کے دوران مودی حکومت سے یہ سوال کئی مرتبہ پوچھ چکے ہیں۔


راج ناتھ سنگھ نے بہر حال اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا”کانگریس کے کئی لیڈر سوال پوچھ رہے ہیں کہ بھارت چین سرحد پر کیا ہورہا ہے؟ میں ملک کے عوام کو یقین دلا نا چاہتا ہوں کہ پارلیمنٹ میں اس حوالے سے تفصیل پیش کروں گا۔ سرحدی تنازعہ کے سلسلے میں فوجی اور سفارتی سطح پر چین کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ چھ جون کو فوجی سطح پر بات چیت ہوئی ہے۔ ہم کسی بھی ملک کے وقار، عزت اور فخر کو نہ چوٹ پہنچاتے ہیں اور نہ ہی ہم چوٹ برداشت کریں گے۔“

بھلا عوام اس ’جنگ‘ میں کیوں کر پیچھے رہتی۔ ٹوئٹر پر وہ بھی اس جنگ میں اپنی جوہر دکھارہے ہیں۔ نوجوان شاعر عمران پرتا پ گڑھی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ”راہول گاندھی جی کے ٹوئٹر ہینڈل سے ایک شعر کیا پوسٹ ہوا کہ پورا ٹوئٹر شاعرانہ ہوگیا ہے۔غضب تو یہ ہوا ہے کہ راج ناتھ سنگھ جی تک ’کڑی نندا‘ (سخت مذمت) چھوڑ کر شاعری کی روایت زندہ کررہے ہیں۔“

دہلی میں جشن ریختہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید