1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرکاری رازداری قانون، جمہوریت پر لٹکتی تلوار ہے

22 ستمبر 2020

تین عشرے قبل اترپردیش کے ایک چھوٹے سے قصبے کے کسی مکین کی شامت آئی کہ اس نے فوج کے ماہنامپ جریدے سینک سماچار کی سالانہ خریداری کے لیے دوسو روپے کا ایک منی آرڈر بھیجا۔ یہ جریدہ تقریبا سبھی اسٹالوں پر دستیاب رہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ipCr
Iftekhar Jellani - DW Urdu Blogger
تصویر: Privat

فوج کے ہیڈکوارٹر میں منی آرڈر لینے والے سرکاری اہلکار نے انکوائری کا حکم دیا کہ یہ شخص اس جریدہ کا خریدار کیوں بننا چاہتا ہے؟ بس کیا تھا کہ آئے دن پوچھ تاچھ، اس شخص کے گھر پر تو خفیہ محکمے نے ڈیرا ہی ڈال دیا اور اس کو سرکاری رازداری قانون یعنی آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت پولیس حراست میں لیا گیا۔ مگر خوش قسمت تھا کہ کسی افسر نے رحم کھا کر کیس کو عدالت تک پہنچنے سے قبل ہی اس کو رہا کرا دیا۔ مگر اس سے قبل اس نے کسی بھی جریدے کی طرف آنکھ اٹھانے سے توبہ کی۔ میں تو بس اس واقع کو من گھڑت افسانہ سمجھتا تھا، یہاں تک کہ 2002ء  میں، میں خود اس قانون کا شکار ہو گیا۔ چونکہ اس قانون کے تحت شاذونادر ہی مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ اس لیے اب تک یہ لوگوں کی خاطر خواہ توجہ سے دور رہا ہے۔ لیکن ابھی حال ہی میں دہلی میں مقیم سینئر صحافی راجیو شرما کی گرفتاری نے یہ عیاں کر دیا ہے کہ اس قانون کی افادیت اور اس کی جابرانہ دفعات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔

اس قانون کی بربریت کا اندازہ مجھے دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کی حراست کے دوران ہی ہو گیا تھا۔ ایک دن مدھیہ پردیش کے شہر گوالیار سے ایک خاتون پولیس اہلکار کی قیادت میں ایک ٹیم پرانی دہلی میں مقیم ایک عورت کو گرفتار کرنے کے لیے آئی تھی۔ شام کو پولس والے ایک ادھیڑ عمر کی عورت حسینہ بانو کو گھسیٹ کر لے آئے۔ رات بھر انٹروگیشن روم سے اس کو چیخ پکار سنائی دیتی رہی۔ بعد میں پتا چلا کہ عورت کا شوہر دو سال پہلے اس کو چھوڑ کر چلا گیا ہے اور وہ اب اپنی بوڑھی ماں اور تین بچوں کے ساتھ کسی چھوٹے سے گھر ہیں رہتی ہے۔

اگلے دن پولیس سیل میں قابل رحم منظر تھا۔ عورت کا دو سالہ بچہ مسلسل روئے جا رہا تھا۔ بڑا سات سالہ لڑکا ہاتھ میں پیسوں کی ایک گندھی تھیلی لیے خاتون پولیس افسر کے پیروں میں گڑگڑا رہا تھا۔ بچے کی حالت اور عورت کی آہ و زاری پتھر دل انسان کو موم کرنے کے لیے کافی تھی۔ عورت پر الزام تھا کہ گوالیار میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے کسی ایجنٹ نے اس کے ہاتھ کوئی سی ڈی پاکستان بھیجی تھی۔

پولیس کے ایک اہلکار نے ہی مجھے بتایا کہ ایک سال قبل یہ خاتون رشتہ داروں سے ملنے پاکستان گئی تھی۔ پرانی دہلی کے ریلوے اسٹشن سے، جیسے ہی سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین روانہ ہو رہی تھی، ایک نوجوان نے کھڑکی کے پاس آ کر اس عورت کوایک  لفافہ تھما کر درخواست کی کہ یہ پاکستان میں اس کے رشتہ دار تک پہنچا دے۔ غریب ان پڑھ عورت نے پیکٹ لے کر اپنے بیگ میں رکھا۔ ایک سال بعد جب وہ شخص گوالیار میں پکڑا گیا تو اس نے اس خاتون کا نام لیا۔ یہ خاتون کئی سال تک پھر گوالیار جیل میں بند رہی۔ اس کی بوڑھی ماں اور اس کے تین بچوں کے چہرے ابھی تک میری نظروں کے سامنے ہیں اور ان کی چیخ و پکار ابھی تک کانوں میں سنائی دے رہی ہے۔ صرف اس نادانستہ عمل سے کسی کے خلاف جاسوسی کا معاملہ کیسے قائم کیا جا سکتا ہے؟
اس قانون کی لاقانونیت پر بحث کرتے ہوئے چنچل سرکار نے اپنی کتاب Challenge and Stagnation میں بتایا ہے کہ اس کی دفعات کی تشریحات کو اس قدر وسیع رکھا گیا ہے کہ وزارت داخلہ کا کوئی چپڑاسی اگر کسی رپورٹر کو یہ بتا دے کہ انڈر سیکرٹری صاحب کو چائے میں دو چمچ چینی ڈالنے کی عادت ہے تو اس قانون کے تحت یہ انکشاف قابل سزا جرم ہو گا۔

سات مہینے دہلی کے تہاڑ جیل میں گزار کر، میری اس قانون کا شکار ہونے والے متعدد افراد سے ملاقات ہوئی۔ ان سب کی ایک ہی کہانی تھی۔ فوج کے لیے بڑھئی کا کام کرنے والے حسام الدین کی دہلی میں ایک بس پر سوار ہوتے وقت خفیہ اہلکار کے ایک ملزم سے تکرار ہو گئی تھی۔ بس اتنی سی بات پر اس کو تفتیشی مرکز لیے جایا گیا، جہاں اس سے یونٹ کا نام و پتہ لکھوایا گیا، جہاں وہ تعینات تھا۔ پورے چھ سال قید میں رہنے کے بعد وہ ضمانت پر رہا ہو گیا۔ اس یونٹ کے ایک کلرک محمد اسرار کو بھی حسام الدین کے ساتھ ملزم بنایا گیا تھا۔ بارڈر روٹس آرگنائزیشن کے ایک ریٹائرڈ ملازم محمد اسلام کی گرفتاری اس قانون کے غلط استعمال کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ریٹائرمنٹ کے آٹھ سال بعد محمد اسلام کو اتر پردیش کے شہر دیوبند سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جو واحد خفیہ دستاویز اسلام کے پاس برآمد ہوئی تھی اور جس کے وجہ سے اس نے پانچ سال جیل میں گزارے، وہ بھارت ہیوی الیکٹرکلزکا ایک تعارفی کتابچہ تھا، جو اس نے پرگتی میدان میں لگنے والی تجارتی نمائش میں کمپنی کے اسٹال سے اٹھا لیا تھا۔ اس قانون کے بے وجہ استعمال کی ایک اور مثال وصی اختر زیدی اور ایک آٹو ڈرائیور محمد اسلم بھی تھے۔ دونوں کے پاس دہلی اور آگرہ چھاؤنیوں کے نقشے برآمد ہوئے تھے۔
دیگر قوانین کے تحت گرفتار ہونے والے ملزمان کو اگر پولیس پھنسا کر کوئی ممنوعہ چیز ان پر تھوپ دیتی ہے، تو کم سے کم ملزم کو معلوم ہوتا ہے کہ کونسی چیز کے برآمد ہونے کی وجہ سے وہ جیل میں بند ہے۔ اور عدالت میں دفاع بھی آسانی سے کر سکتا ہے۔ مگر سرکاری رازداری قانون میں اگر پولیس کوئی دستاویز تھوپ دیتی ہے، وہ ملزم اور نہ ہی اس کے وکیل کو دکھائی جاتی ہے۔ لہذا عدالت میں دفاع بھی نہیں کر پاتے ہیں۔

جیل سے باہر آنے کے بعد جب میں نے اپنے طور پر اس قانون اور اس کے تحت قید افراد کی تفتیش شروع کی، تو بڑی مشکل سے اسلم، زیدی اور چند دیگر افراد کی فائلوں تک رسائی حاصل کی۔ میرٹھ بھارت کا حساس علاقہ ہو سکتا ہے لیکن ایک عجیب رجحان دیکھنے میں آیا کہ پولیس نے کم از کم چھ الگ الگ مقدمات میں ہاتھ سے بنائے گئے میرٹھ چھاؤنی کے ایک ہی طرح کے خاکے ثبوت کے طور پیش کیے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کی تین الگ مقدموں میں ایک ہی طرح کی یونٹ فارمیشن کی تفصیل کو بھی بطور ثبوت پیش کیا گیا تھا۔ جب کسی نیوز رپورٹ میں پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ راجیو شرما نے ڈوکلم میں چین کو بھارتی فوج کی پوزیشن کے بارے میں اطلاع دی، تو اس پر تاسف کرنے کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔

 جب آج کی دنیا میں اس قدر جدید سٹلائٹ موجود ہیں، جو زمین کے چپے چپے کی خبر رکھتے ہیں، تو کیا یہ بیوقوفی نہیں لگتی کی کوئی ملک چھاؤنیوں اور فوجیوں کی پوزیشن معلوم کرنے کے لیے نو سکھیوں کی مدد لے کر ہاتھ سے بنے اسکیچ حاصل کرے۔ انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سرکردہ سائنسداں ایس نمبی برائن کو اسی قانون کے تحت دو سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا۔ حقوق انسانی کے قومی کمیشن نے بعد میں ان کو دس لاکھ روپے معاوضے کے طور پر دینے کا حکم دے دیا۔ احمد میاں صدیقی کا قصہ کچھ کم عجیب نہیں تھا، وہ بھارتی پارلیمنٹ میں ایک ڈپٹی سیکریٹری کے معاون کے طور پر کام کرتے تھے۔ ان کا جرم یہ تھا کی انہوں نے کسی مبینہ پاکستانی ایجنٹ کو مختلف وزارتوں کی سالانہ اور پارلیمنٹری اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹیں فراہم کی تھیں، جو با آسانی انٹرنیٹ سے لے کر کہیں بھی دستیاب رہتیں ہیں۔
ویسے تو کالے قوانین کی فہرست کچھ کم نہیں ہے۔ مگر اس قانون میں حکومت کو اتنے وسیع اختیارات دیے گیے ہیں کہ یہ دکھانا لازم نہیں کی ملزم کسی مخصوص حرکت کا مرتکب ہوا ہے، جو ملک کی سلامتی یا مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہو۔ ثبوت کی عدم موجودگی میں بھی ملزم کو سزاوار ٹھہرایا جا سکتا ہے، بس یہ ہلکا سا اشارہ ہونا چاہیے یا سیکیورٹی ایجنسی کے کسی اہلکار کی گواہی کہ ملزم کے پاس ملے دستاویزات کی وجہ سے ملک کی سلامتی یا مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ اسی لیے شاید لاء کمیشن سے لے کر ایڈمنسٹریٹو کمیشنوں نے بار بار 1925ء میں برطانوی حکومت کی طرف سے ترتیب دیے اس قانون کو کالعدم کرنے کی گزارش کی ہے اور اس کو جمہوری نظام پر دھبہ قرار دیا ہے۔

مگر جہاں پر قومی سلامتی کو ایک مقدس گائے کی طرح پوجا جاتا ہو اور اس پر کسی طرح کے سوالات کرنا شجر ممنوعہ ہو، وہاں پر ان سفارشات پر عمل کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ کتنا عجیب ہے کہ عوامی منڈیٹ سے منتخب ہونے کے بعد وزراء کو رازداری کا حلف دلایا جاتا ہے، یعنی جن لوگوں نے ان کو تخت پر بٹھایا،ان سے ہی ان کو حکومت کے معاملات مخفی رکھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ حق اطلاعات کے دور میں ہونا یہ چاہیے تھا کی وزیروں کو شفافیت اور احتساب کا حلف دلایا جاتا مگر اس نقارخانے میں طوطی کی آواز آخر کون سنے گا؟
برطانوی حکومت اپنے یہاں سے رازداری قانون ختم کر چکی ہے۔ مگر بھارت اور پاکستان 1923ء کے قانون کو سینے سے لگا بیٹھے ہیں۔