1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں سائبر آرمی پر کنٹرول کی کوشش شروع

7 اگست 2020

ریاستی سرپرستی میں جاری قوم پرستی کی مہم میں سعودی عرب کی خودساختہ حب الوطن ’آن لائن آرمی‘ ناقدین کو ’غدار‘ قرار دیتے ہوئے انہیں نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ ’ڈیجیٹل فورس‘ حکومت کے لیے بھی مسئلہ بن سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3gcvl
Saudi Arabien Wandbilder Familie Saud
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

محمد بن سلمان کے سعودی ولی عہد سلطنت بننے کے ساتھ ہی سعودی عرب میں قوم پرستی کا جذبہ اجاگر کرنے کی مہم شروع کر دی گئی تھی۔ محمد بن سلمان سعودی عرب کے سخت گیر مذہبی ملک کے تاثر کو 'ہائپر نیشنلزم‘ میں بدلنے کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ڈیجٹل پلیٹ فارمز کا بخوبی استعمال کیا جا رہا ہے۔

دنیا کے متعدد ممالک میں سیاسی بحث و مباحث کو مسخ کرنے کے لیے آن لائن پراپیگینڈے کا استعمال عام سی بات ہے۔ لیکن سعودی عرب میں نام نہاد ڈیجیٹل 'فلائیز‘ (مکھیاں) حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ بروئے کار لا رہی ہیں۔

ان ٹرولز کی پوسٹوں میں سکیورٹی ایجنسیوں کو ٹیگ بھی کیا جاتا ہے۔ ان کی جارحانہ مہم کے نتیجے میں گرفتاریاں بھی عمل میں آتی ہیں اور لوگوں کو ان کے عہدوں سے برطرف کیے جانے کے علاوہ ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب میں انتہا پسندی کے مقابلے کی آن لائن کوششیں

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گھوسٹ اکاؤنٹس حکومت سے منسلک ہیں، جو شاہی کورٹ کے سابق مشیر سعود القحطانی کی ایک خفیہ پالیسی کے تحت بنوائے گئے تھے۔ القحطانی اکتوبر سن 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد برطرف کر دیے گئے تھے۔

بعد ازاں انہیں 'مسٹر ہیش ٹیگ‘ اور 'لارڈ آف دی فلائیز‘ کے نام سے بھی مخاطب کیا جانے لگا، جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سعودی سلطنت کے دفاع کے لیے 'الیکٹرانک آرمی‘ بھرتی کی تھی۔

تاہم اب کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ گھوسٹ اکاؤنٹس ریاست کے لیے ایک چیلنج بن سکتے ہیں اور اپنی اتھارٹی کا بے جا استعال کرنے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔

واشنگٹن میں مقیم سعودی امور کے ماہر انس شاکر نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ یہ گھوسٹ اکاؤنٹس سعودی قیادت کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوئے ہیں لیکن جب یہ زیادہ طاقتور ہوئے تو حکومت ان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش میں ناکام بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے کوشش شروع کر دی ہے کہ اس 'ڈیجیٹل آرمی‘ کو کنٹرول میں ہی رکھا جائے اور ریاستی رٹ برقرار رہے۔

ان ٹرولز کے خطرے کی وجہ سے سعودی عرب میں لبرل طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے ٹوئٹر کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو حکومت اور محمد بن سلمان کی اصلاحات پر تعمیری تنقید کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب: انتہاپسند نظریات کے خاتمے کے لیے نصابی تبدیلیاں

عرب دنیا میں ٹوئٹر کے سب سے زیادہ صارفین کا تعلق سعودی عرب سے ہی ہے۔ ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر شائع کردہ معلومات کو اپنے مقاصد کے لیے غلط طریقے بھی استعمال کرتے ہیں۔

گزشتہ برس سعودی عرب میں ٹوئٹر کے دو ملازمین پر فرد جرم عائد کی گئی تھی کہ وہ سعودی حکومت کے لیے جاسوسی کر رہے تھے۔ ٹوئٹر کمپنی سعودی عرب میں سینکڑوں اکاؤںٹس بلاک بھی کر چکی ہے، جن میں سے متعدد حکومت میڈیا اداروں سے وابستہ تھے۔

تاہم شاکر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو کنٹرول میں لانا ایک مشکل عمل ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ ریاستی رٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر ابھریں گے۔

ع ب / ب ج/ اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں