1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کے لیے جرمن ہتھیاروں کی فراہمی کی منظوری

20 ستمبر 2018

یمنی تنازعے میں شامل ممالک کے لیے ہتھیاروں کی فروخت جرمن حکومتی اتحاد کے معاہدے کے خلاف ہے، تاہم برلن حکومت نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دے دی ہے۔

https://p.dw.com/p/35DCG
Gewehr MR 223
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann

ایک ایسے موقع پر جب یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف سعودی قیادت میں عرب اتحاد پر ’جنگی جرائم‘ جیسے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، جرمنی نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل جرمن حکومت اس عزم کا اظہار کرتی رہی ہے کہ وہ یمنی تنازعے میں شامل ممالک کو ہتھیار فراہم نہیں کرے گی۔

’تمہارے ہتھیاروں کے ضرورت نہیں ہے، کہیں اور سے خرید لیں گے‘

جرمن اسلحے کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ

جرمن وزیر معیشت پیٹر الٹمائر نے اس حوالے سے سعودی عرب کے لیے عسکری گاڑیوں میں تنصیب کے لیے چار آلٹیلری پوزیشنگ نظام فروخت کرنے کی بابت ’گرین سگنل‘ دیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی میں جمع کرائے گئے ایک مراسلے کے مطابق اس نظام کے تحت دشمن کی جانب سے فائر کی صورت میں یہ نظام ریڈارز کی مدد سے دشمن کے مقام کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی کر دیتا ہے، تاکہ اس پر جوابی حملہ کیا جا سکے۔

چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت اور جرمنی کی دوسری سب سے بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے رواں برس کے آغاز پر اتحادی حکومت کے قیام کے لیے جو معاہدہ کیا تھا، اس میں طے کیا گیا تھا کہ یمن میں جاری خانہ جنگی میں شامل کسی بھی فریق کو جرمن ہتھیار فراہم نہیں کیے جائیں گے۔ اس معاہدے میں تاہم پہلے سے منظور کردہ برآمدات کو شامل نہیں کیا گیا تھا، تاہم اس بابت بھی شرط یہ تھی کہ ایسے ہتھیار وصول کنندہ ملک کے اندر ہی رہنا چاہیئیں۔

جرمنی کی وفاقی سکیورٹی کونسل، جس میں چانسلر میرکل کے علاوہ کابینہ کے متعدد وزیر شامل ہیں، نے متحدہ عرب امارات کو بھی 48 مختلف طرز کے ہتھیار فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے، ان میں بحری جہاز پر نصب ہونے والا فضائی دفاعی نظام بھی شامل ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ سعودی قیادت میں عرب اتحاد میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے، اور یہ اتحاد سن 2015 سے یمن میں صدر منصور ہادی کی فورسز کی مدد کے لیے عسکری کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اس اتحاد نے یمن کی بحری ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اس دوران یمنی تنازعے میں ہلاک شدگان کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جب کہ کئی مقامات پر قحط اور کم خوراکی کے مسائل کی وجہ سے انسانی المیے کی سی صورت حال ہے۔ عالمی تنظیمں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر ممکنہ جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کرتی ہیں۔