1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عسکری اتحاد کی مسلح کشتیوں کے خلاف کارروائی

20 ستمبر 2019

سعودی سرکاری میڈیا کے مطابق ملکی فوج نے یمنی بندرگاہ حدیدہ کے قریب بعض کشتیوں کو نشانہ بنایا ہے جو ریموٹ سے کنٹرول کی جاتی تھیں۔

https://p.dw.com/p/3PvZx
Saudi-Arabien US Kampfjet Symbolbild
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کے مطابق کشتیوں کے علاوہ چار ایسے مقامات پر بھی حملے کیے گئے، جہاں انہیں لنگر انداز کیا جاتا تھا۔ اس بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بغیر کسی انسان کے چلنے والی ان کشتیوں کی کتنی تعداد کو تباہ کیا گیا۔  اتحاد کے بیان میں واضح کیا گیا کہ جن مقامات کو تباہ کیا گیا وہاں سے سمندری گزرگاہوں میں بارودی سرنگیں بچھانے کا سلسلہ بھی شروع کیا جا سکتا تھا۔

عسکری اتحاد نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی کشتیوں کے خلاف کی جانے والی یہ کارروائی بروقت تھی اور حقیقت میں دہشت گردی کے ایک بڑے منصوبے کو نابود کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس فوجی مشن کا مقصد سمندر میں آزادانہ نقل و حرکت کو تحفظ دینا ہے۔

جمعہ بیس ستمبر کو حوثی ملیشیا نے سعودی فوجی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقائی صورت حال کو مزید کشیدہ کرنے کے برابر ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ حدیدہ کے قرب وجوار میں سعودی حملوں کا تسلسل سویڈن سمجھوتے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

Jemen Hafenstadt Hudaida
عسکری اتحاد کے مطابق اس فوجی مشن کا مقصد سمندر میں آزادانہ نقل و حرکت کو تحفظ دینا ہے۔تصویر: Getty Images/AFP/S. Al-Obeidi

یمنی بندرگاہ حدیدہ کے قریبی سمندری علاقے میں یہ کارروائی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب سعودی تیل کی تنصیبات پر مبینہ ایرانی حملوں کے بعد خطے کی صورت حال انتہائی کشیدہ ہے۔ ایران سعودی تیل کی تنصیبات پر حملوں کی تردید کرتا ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری یمن کی حوثی ملیشیا قبول کر چکی ہے لیکن امریکا اور سعودی عرب کا اصرار ہے کہ ان حملوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔

دوسری جانب امریکی فوج کا صدر دفتر پینٹاگون آج جمہ بیس ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے حوالے سے مختلف فوجی امکانات سے آگاہ کرے گا۔ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ایرانی حملے کے تناظر میں کوئی امریکی لائحہ عمل طے کرنے کے حوالے سے مختلف عسکری منصوبوں کی تفصیلات اس بریفنگ میں صدر کے سامنے پیش کی جائیں گی۔

وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس میٹنگ میں ایران کے اندر مختلف اہداف کو ممکنہ طور پر نشانہ بنانے کے آپشن بھی شامل ہے۔ خلیج فارس کی کشیدہ صورت حال کے تناظر میں ایران نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی عسکری مہم جوئی کے نتیجے میں ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔

ع ح ⁄ ا ب ا (اے ایف پی، اے پی)