1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ: خواتین مساجد میں باجماعت نماز پڑھ سکیں گی

8 دسمبر 2023

پاکستانی صوبہ سندھ کے محکمہ اوقاف نے کہا ہے کہ صوبے کی مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہ بنائی جائے تاکہ خواتین بھی مساجد میں نماز ادا کر سکیں۔

https://p.dw.com/p/4ZwgX
جامع مسجد دہلی میں خواتین جمعے کی نماز پڑھتے ہوئے
جامع مسجد دہلی میں خواتین جمعے کی نماز پڑھتے ہوئےتصویر: Adnan Abidi/REUTERS

خواتین کے لیے مساجد میں الگ جگہ بنانے کے حوالے سے یہ فیصلہ کراچی میں نگراں صوبائی وزیر عمر سومرو کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔

نگراں صوبائی وزیر عمر سومرو کے زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں صوبے میں خواتین کے لیے مساجد میں الگ جگہ بنانے کے حوالے سے انگریزی، اردو، سندھی اور گجراتی زبانوں میں آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ساتھ ساتھ صوبے میں قائم مساجد اور مدارس کا ڈیٹا بھی جمع کیا جائے گا۔

مساجد میں نماز کی علیحدہ جگہ بنانے کا فیصلہ

نگراں حکومت کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ اس اجلاس میں دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر 77 مساجد میں خواتین کے لیے نماز پڑھنے کی الگ جگہ مختص کی جائے گی۔ یہ تمام مساجد محکمہ اوقات کے زیر انتظام ہیں۔

ابتدائی طور پر محکمہ اوقاف 77 مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہ بنائی جائے گی
ابتدائی طور پر محکمہ اوقاف 77 مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہ بنائی جائے گیتصویر: Raffat Saeed/DW

اس کے علاوہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مساجد کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے عمل کو بھی تیز کیا جائے گا۔ سندھ کی نگران حکومت کے وزیر قانون عمر سومرو نے ہدایت جاری کی کہ محکمہ اوقاف دیگر متعلقہ محکموں کے ساتھ مل کر مساجد اور مدارس کا اندراج کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کیا جائے۔

مذہبی حلقوں کی جانب سے پذیرائی

مذہبی حلقوں کی جانب سے محکمہ اوقاف کے اس فیصلے کو مثبت عمل قرار دیا جا رہا ہے۔ جامعہ الدراسات اسلامیہ کے مدیر اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے رکن مفتی محمد یوسف کشمیری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا فیصلہ خوش آئند ہے، ''ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک کی مساجد میں خواتین کے لیے علیحدہ جگہ ہونی چاہیے۔ اس سے با جماعت نماز ادا کرنے کی خواہش رکھنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی ہو گی۔‘‘

خواتین کا مثبت ردعمل

کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی کی 45 سالہ خاتون آمنہ اسحاق کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کراچی شہر میں کچھ مساجد میں تو خواتین کی نماز پڑھنے کا انتظام موجود ہے، ''لیکن کسی تقریب یا کسی کام سے گھر باہر نکلنے کی صورت میں اکثر ہی نماز قضا ہو جاتی ہے، جس کی بنیادی وجہ شہر کی اکثریتی مساجد میں خواتین کے لیے نماز کے علیحدہ انتظام نہ ہونا ہے۔‘‘

ان کے بقول اس طرح ملازمت کرنے والی خواتین دفتر یا دکان میں تنہا عبادت کرنے کے بجائے با جماعت نماز ادا کر سکیں گی، ''اکثر بازاروں اور دکانوں میں خواتین کے لیے نماز پڑھنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے خواتین کو دکانداروں سے کوئی کرسی یا اسٹول مانگ کر نماز ادا کرنی پڑتی ہے۔‘‘

زیادہ تر مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہ مختص نہیں ہوتی
زیادہ تر مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہ مختص نہیں ہوتیتصویر: Raffat Saeed/DW

آمنہ اسحاق مزید کہتی ہیں، ''اگر ہر مسجد میں خواتین کے لیے علیحدہ انتظام ہو گا تو یہ ایک بہت اچھا عمل ہو گا، کیونکہ سندھ کے تقریباً ہر شہر کے ہر محلے میں ایک نہ ایک مسجد ضرور قائم ہے۔‘‘

’کسی نعمت سے کم نہیں‘

کراچی لائنز ایریا کی رہائشی کلثوم جہاں آؤٹ ڈور مارکیٹنگ کی جاب کرتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس فیصلے کو ایک نعمت قرار دیا، '' دن بھر پیدل چلنے سے تھکن بہت ہوتی ہے، اور لوگوں کا رویہ بھی ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہوتا۔ اگر علاقوں میں ایسی مساجد ہوں گی، تو با جماعت نماز ادا کرنے کے ساتھ ساتھ سردی گرمی میں پینے کا پانی میسر ہو گا اور کچھ لمحات سکون کے بھی گزارے جا سکیں گے۔‘‘

مفتی یوسف کشمیری کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آبادی میں خواتین کی نصف تعداد ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں صوبے بھر کی مساجد میں ان کے لیے نماز پڑھنے کی جگہیں نہ ہونے کے برابر ہیں،

ان کا کہنا تھا، ''یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ملک میں بسنے والے شہریوں کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرے۔ دنیا بھر میں اسلامی ممالک کے علاوہ بھی مغربی ممالک میں مساجد میں خواتین کی نماز کے لیے علیحدہ جگہ ہوتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘

پاکستان میں عام دیکھا گیا ہے کہ مساجد اور عید گاہوں میں خواتین کے لیے عید کی نماز پڑھنے کے لیے جگہ مختص کی جاتی ہے۔ ان مذہبی تہواروں کے موقع پر خواتین کی ایک بڑی تعداد مساجد کا رخ بھی کرتی ہے۔ مذہبی حلقوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد کو امید ہے کہ حکومت سندھ کے اس فیصلے کی تقلید کرتے ہوئے دیگر صوبے بھی اسی طرح کے اقدامات کریں گے۔

یورپ کی مساجد کتنی منفرد ہیں؟