1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنسرشپ کی ڈائن اور جنرل آصف غفور، ہم سب ایک پیج پر

امان اظہر، واشنگٹن نیویارک
8 دسمبر 2018

میجر جنرل آصف غفور کی راولپنڈی میں پریس کانفرنس کو پاکستانی ٹیلی وژن چینلوں پر شروع سے آخر تک لائیو دیکھتے ہوئے مجھے پاکستان کے صحافیوں، رپورٹروں اور اینکروں سے مکمل ہمدردی پیدا ہوئی۔

https://p.dw.com/p/39iGd
Hasan Mujtaba
تصویر: Privat

میں نے سوچا میرے ہم پیشہ، کئی ہم نوا بھائی اور بہنیں کس طرح کی ذہنی سنسرشپ میں نہ فقط اپنے لیے روزی پیدا کر رہے ہیں بلکہ زندہ بھی ہیں۔ بلکل جیسے حبیب جالب نے کہا تھا، ’’زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے‘‘۔ جنرل آصف غفور راولپنڈی  میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز میں بلائے گئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ان خواتین و حضرات کو ’’مشورہ‘‘ دے رہے  تھے کہ ملک نازک حالات میں ہونے کی وجہ سے وہ چھ ماہ تک ’’پاکستان کا مثبت امیج‘‘ لکھیں، شائع اور نشر کریں۔ دوسرے الفاظ میں اگر جنرل صاحب کے بیان کی مزید وضاحت کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، پتھر کو گوہر، دیوار کو در اور کرگس کو ہما لکھیں۔ یہ پریس کانفرنس اور مشورے سے بھی بڑھ کر میڈیائی مارشل لا نہیں ہے تو اور پھر کیا ہے؟  پاکستان کا ’’مثبت تصور‘‘ کا مطلب؟ اس کا جواب  جنرل آصف غفور نے اسی پریس کانفرنس میں ایک موقع پر ایک صحافی کے سوال پر خود ہی دے دیا کہ “آپ میرا جواب  سمجھ رہے ہیں اور میں آپ کا سوال بھی سمجھ رہا ہوں‘‘۔ صحافی اتنا بھولا بھی نہیں تھا، جب اس نے کہا وہ کیسے ’’مثبت تصور‘‘ لکھیں جب سیویلینز کی کرپشن دیکھ رہے ہوں‘‘۔ ستائیس کروڑ پاکستانیوں میں فقط بچارے ’چھ لاکھ فرشتے‘ ہیں، جن کے احتساب کا کڑا سسٹم ہے، جنرل آصف غفور کہہ رہے تھے، جیسے ایوب سے  مشرف  تک کا ہوا۔

  ویسے تو بہت تگڑے لیکن جنرل آصف غفور کے حضور ایک ’یرغمالی شکل‘ لیے بیٹھے راولپنڈی اور اسلام آباد کے صحافیوں (کئی  دوستوں کو تو میں ذاتی طور بھی جانتا ہوں) کو  دیکھا کہ جنرل کی بات شروع ہونے سے اثبات میں یا داد کے انداز میں ہلکی سی گردن ہلانا شروع کر دیتے تھے۔ میں نے سوچا یار ’’گردن کٹوانے سے زیادہ گرد ہلانا ہی اچھا ہے‘‘۔

 مجھے حیات اللہ سے لے کر سلیم شہزاد تک سارے صحافی یاد آئے، مجھے بلوچستان کا صحافی میرا دوست ارشاد مستوئی یاد آیا، جو فوج اور بلوچ سرمہ چاروں دونوں کی بندوق کی زد میں رہا تھا۔ جس پر دو بار بم حملہ ہوا اور ایک دفعہ گوادر کے دورے کے موقع پر ہوٹل کے کمرے میں ’’بجلی کے کرنٹ‘‘ کا شکار ہوکر اپنا ایک ہاتھ گنوا بیٹھا تھا۔

اسکاٹ لینڈ میں ایک کمپنی ہے ’’بائیونک ٹچ‘‘ کے نام سے، وہ مصنوعی ہاتھ  بناتی ہے۔ لیکن وہ اس کی جو رقم بتا رہے ہیں وہ ساٹھ لاکھ پاکستانی روپے ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ نہیں ادا کر سکتا تھا۔ پھر ایک دن خبر آئی کہ یہ گردن نہ ہلانے والا صحافی اپنی نیوز ایجنسی پر بندوق بازوں کے حملے میں اٹھائیس اگست دو ہزار چودہ کو مارا گیا۔ کسی نے کہا کہ وہ ریاستی ایجنسیوں کی ایما ہر مارا گیا، تو کسی نے کہا بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں۔ یہ بھی گردن نہ ہلانے والا صحافی نفی کو اثبات نہ لکھ سکا تھا۔

ایسے کئی الفاظ ہیں،جو پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آپ نہ لکھ سکتے ہیں نہ کہہ سکتے ہیں۔ شاید اس طرح  نہ کہنے اور لکھنے کو جنرل آصف غفور ’’پاکستان کا مثبت تصور‘‘کہتے ہیں۔ سی پیک یا چین پاکستان اقتصادی راہداری پر تنقید بھی نہیں کی جا سکتی۔ گویا کہ سی پیک کے بارے میں منفی لکھنا بلاسفیمی ٹھہرا، شاید مستقبل میں ’’کرتارپور راہداری‘‘ کے حوالے سے بھی ایسا ہی ہو۔ ماما قدیر تو پہلے ہی ممنوع بور تھا اور اب منظور پشتین اور ساتھی بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔

سندھی اخبارات کے اداراتی صفحے پر  کل کیا شائع ہونے جا رہا ہے؟  یہ رینجر کے مقامی کمانڈروں کو پتہ ہوتا ہے۔ سندھی اخبارات یا نام نہاد قومی اخبارات کیا بیچتے ہیں!  نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں شائع ہونے والے ایڈیشن میں آرٹیکل کی جگہ خالی جاتی ہے۔

تو عزیزو! پیارے پاکستان میں سنسرشپ کی ڈائن کی نیچے رکھے فاختہ کے انڈوں کو کوئی کس طرح نکالے؟ اب اس ملک میں رضیہ بھٹی روز روز تو پیدا نہیں ہوتیں، جن کا  لکھا سانپوں کے بلوں میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔  آج رضیہ ہوتی تو پکا پکا سرل المیڈا کی صفائی میں کھڑی ہوتیں۔ اب تو نایاب حسین بھی نہیں رہا، نہ پرنٹر، نہ پبلشر، نہ مالک ۔ بس غداری کا مقدمہ بھگت رہا ہے تو وہ بس سرل کہ باقی سب ایک پیج پر ہیں۔ سرل سے اب یہ بھی تحقیقات ہو رہی ہیں کہ اپنی صفائی میں اس نے آئی ایس آئی کے سابق چیف سے کس کی اجازت سے ملاقات کی؟

تو عزیزو! میں نے دیکھا کہ جنرل آصف غفور اور صحافی سب ایک پیج پر تھے۔ بلکہ اب آپ پاکستانی میڈیا میں نہیں کہہ سکتے کہ پیج کس نے لکھا ہے؟جنرل  آصف غفور نے یا میڈیا والوں نے بقلم خود؟ بلکہ مجھے لگا کہ پیج وہی ہے، جو جنرل شیر علی سے لیکر جنرل آصف غفور تک اور الطاف گوہر سے لے کر چودھری فواد تک چلتا آیا ہے!

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔