1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوشل میڈیا کمپنیاں شفاف انتخابی عمل کے لیے خطرہ قرار، رپورٹ

16 فروری 2020

ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات میں ہیرا پھیری کے لیے فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا غلط استعمال جمہوری عمل کے لیےخطرہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3XrS4
Symbolbild Twitter Fake News
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/A. M. Chang

میونخ سکیورٹی کانفرنس میں ماہرین نے کہا کہ انتخابات جمہوریت میں ریڑھ کی ہڈی رکھتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر نفرت آمیز مواد، جھوٹی معلومات اور غلط خبریں اس عمل کو نقصان پہنچا  رہی ہیں۔
کوفی عنان فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال امریکا کے ساتھ ساتھ تقریبا 80 ممالک میں انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر غلط خبروں کے مواد کے پھیلاؤ سے انتخابات کے دوران ووٹروں کو باقاعدہ گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام ممالک کو انتخابات میں غیر ملکی دخل اندازی اور جعلی خبروں  کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھنا ایک چیلنج ہوگا۔ 

Brüssel EU-Parlament | Mark Zuckerberg, Facebook-CEO
تصویر: picture-alliance/AA/European Parliament


کوفی عنان فاؤنڈیشن کے ’ڈجیٹل دور میں الیکشن اور جمہوریت کے کمیشن‘  کی طرف سے جاری کردہ اس تازہ رپورٹ میں اس مسئلے کا حل فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ماہرین نے اس رپورٹ کو مرتب کرنے میں خاص طور پر ترقی پذیر  ممالک پر توجہ مرکوز رکھی، کیونکہ وہاں انتخابی نتائج عموماﹰ تنازعات کا شکار رہتے ہیں، جس سے پرتشدد واقعات اور بدامنی پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے۔ یہ رپورٹ اس سال میونخ سکیورٹی کانفرنس (ایم ایس سی) میں پیش کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں انتخابات میں 'مینوپلیشن' یعنی ووٹرز کو غلط معلومات کے ذریعے گمراہ کرنے کی اکثر نشاندہی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہاں انتخابات کے لیے پہلے ہی وسائل کی کمی رہتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مستقبل میں ایسے ممالک کے انتخابات میں منظم انداز میں نفرت آمیز مواد، غلط معلومات، بیرونی مداخلت اور داخلی ہیرا پھیری جیسے طریقے مرکزی کردار ادا کریں گے۔

کیمبرج اینالیٹیکا: کینیا میں الیکشن سے بریگزٹ اور ٹرمپ تک
ایسٹونیا کے سابق صدر ٹوماس ہینڈرک الیوس اس رپورٹ کے پیش کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے ملک کا شمار ڈجٹلائٹزڈ ترین ممالک میں ہوتا ہے اور وہ اس مسئلے کا سامنا کر چکے ہیں۔ سن 2007 میں ہیکرز کے ایک گروپ نے سرکاری اداروں، پارلیمنٹ، صدر، قومی وزرا، بینک اور میڈیا اداروں کو نشانہ بنا کر مفلوج کر دیا تھا۔ بعد ازاں سن 2009 میں روسی حکومت سے قریبی تعلقات رکھنے والی نوجوانوں کی تنظیم ’ناشی‘  کے ایک رکن نے ان سائبر حملوں کی ذمہ داری لی تھی۔

Symbolbild Facebook
تصویر: picture-alliance/empics/D. Lipinski


ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں الیوس نے کہا کہ کیمبرج اینالیٹیکا نے نہ صرف سن 2016 میں بریگزٹ ریفرنڈم اور امریکی صدر ٹرمپ کے الیکشن میں کردار ادا کیا بلکہ افریقی ملک کینیا میں سن 2013 اور سن 2017 کے انتخابات میں بھی گڑ بڑ کی گئی تھی۔  الیوس کا کہنا ہے کہ جب کمپنی نے دیکھا کہ کینیا میں ان کے منصوبہ کامیاب ہو چکا ہے تو انہوں نے ٹرانس اٹلانٹک تناظر میں اسی طرح کے حربے استعمال کرنا شروع کردیے۔

کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل اس بارے میں تھا کہ فیس بک استعمال کرنے والے قریب 87 ملین افراد کا ڈیٹا کیمبرج اینالیٹیکا کے پاس پہنچ گیا تھا، اور اسے بلا اجازت 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے ریپبلکن امیدوار (اب امریکی صدر) ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی مہم کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔


سیاستدانوں اور قانون سازوں کے لیے ایک چیلنج
انتخابات کو منصفانہ اور غیرجانبدارانہ رکھنےکے لیے کوفی عنان فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں 13 تجاویز پیش کی گئیں۔ ان میں ایک تجویز یہ ہے کہ انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں سے درخواست کی جائے کہ وہ جعلی خبریں اور مواد پھیلانے والی مہم کے طریقوں سے گریز کریں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون سازوں کو واضح طور پر خاکہ پیش کرنا ہوگا کہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کی تشہیری مہم کس حد تک قابل قبول ہے۔

DW SHIFT - Grafik Facebook Persönlichkeitsprofil
تصویر: MDR


اس رپورٹ میں قانون ساز اداروں سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو اس بارے میں جامع اعداد و شمار پیش کرنے پر پابند کریں کہ کس سیاسی جماعت نے سیاسی اشتہارات کے لیے رقم ادا کی۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ سوشل میڈیا کے دیو ہیکل ادارے تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو ڈیٹا فراہم کر کے شفافیت کو بہتر بنانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کمپنیاں اپنے صارفین کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ الگورتھم یا پھر خودساختہ طور پر دکھائے گئے ہر قسم کے سیاسی اشتہارات کو بنیادی طور پر مسترد کر سکیں۔

امید کی کرن
اس حوالے سے فیس بک کے سابق چیف سکیورٹی آفیسر الیکس اشٹاموس جو کہ اس رپورٹ کے مصنفین میں شامل ہیں، ایک مثبت مثال بھی پیش کی۔ اشٹاموس نے بتایا کہ  سن 2017 میں جرمنی کے پارلیمانی انتخابات کے دوران فیس بک کی جانب سے جرمن حکام کے ساتھ مل کر ایسے ہزاروں فیک اکاؤنٹس بند کیے گئے جو باقاعدہ طور پر جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ میں ملوث تھے۔
ع آ / ش ج (ماتھیاس فان ہائن)

آن لائن صارفین اب کنٹرول کر سکتے ہیں اپنے ڈیٹا کو