1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی جماعتوں کے کالعدم تنظیموں سے انتخابی اتحاد

شیراز راج
19 جولائی 2018

پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اہم امیدوار کالعدم تنظیموں کے ساتھ انتخابی اتحاد بنا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی ماضی میں سپاہ صحابہ اور اہل سنت والجماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد بنا چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/31jxq
Pakistan MMA Wahlkampf in Karachi
تصویر: DW/R. Saeed

پاکستان تحریک انصاف کے صف اول کے رہنما اسد عمر کی جانب سے کیا جانے والا یہ حالیہ اعلان پاکستان کے سیاسی حلقوں کو ورطہ حیرت میں ڈال گیا کہ انصار الامہ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خلیل نے تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اسد عمر کے بیان کے مطابق، ’’مولانا نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوری ریاست بنانے کے لیے اقدامات کو مزید فروغ دیا جائے گا۔‘‘

مولانا خلیل کو عالمی سطح پر حرکت المجاہدین (HUM) کے بانی رکن کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کے مبینہ طور پر القاعدہ کے ساتھ تعلقات تھے۔ انہوں نے 1980 میں حرکت جہاد الاسلامی کی بنیاد رکھی تھی تاہم 2000ء میں اس کی صدارت سے الگ ہو گئے۔ پاکستانی حکام نے انہیں مئی 2004 میں گرفتار کیا تھا لیکن چھ ماہ بعد شواہد نہ ہونے کی وجہ سے رہا کر دیا۔ ان کی جماعت انصار الامہ پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ جماعت پاکستان دفاع کونسل کا حصہ بھی تھی۔ مولانا کو امریکی حکومت کی جانب سے 30 ستمبر 2014ء کو عالمی دہشت گردوں کی خصوصی فہرست (SDGT) میں شامل کیا گیا۔

دوسری طرف اہل سنت والجماعت کے مولانا اورنگزیب فاروقی نے کراچی کے علاقے ملیر میں، جو روایتی طور پر پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، ’عوامی خدمت پینل‘ کے نام سے ایک انتخابی اتحاد کا اعلان کیا ہے، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا ایک باغی امیدوار شامل ہیں۔ مولانا فاروقی راہ حق پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 238 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے اعلان کردہ پینل میں مسلم لیگ (ن) سندھ کے رہنما جاوید ارسلا خان (حلقہ پی ایس 89 )، پاکستان تحریک انصاف کے اعجاز سواتی (حلقہ پی ایس 90 ) اور پیپلز پارٹی کراچی کے سابق صدر حاجی مظفر شجرا(حلقہ پی ایس 91 ) شامل ہیں۔ یہ تمام امیدوار مشترکہ انتخابی مہم چلائیں گے اور ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ مولانا فاروقی نے شجرا کے مقابلے میں اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔

گزشتہ انتخابات میں مولانا اورنگزیب فاروقی نے حلقہ پی ایس 128 سے الیکشن لڑا تھا اور صرف 202 ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ موجودہ انتخابی اتحاد کے اعلان کے وقت پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا کا کہنا تھا، ’’ہم نے باضابطہ انتخابی اتحاد کا فیصلہ کیا ہے تا کہ ملیر کے عوام کے مسائل حل کر سکیں، جنہیں انفراسٹرکچر، پینے کا صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ ملیر کے رہائشیوں، بزرگوں اور مقامی تاجروں نے ہم سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ ہم یہ انتخابی اتحاد تشکیل دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، گندگی اور بدبو سے بھری گلیوں اور پانی کی قلت سے تنگ آ چکے ہیں۔‘‘

دوسری جانب مولانا فضل الرحمان خلیل نے پی ٹی آئی میں شمولیت کی تردید کی لیکن اسد عمر کی بھرپور حمایت کرنے کا اعلان ضرور کیا۔ انہوں نے اسد عمر کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات کا حوالہ دیا۔ ان کے مطابق، ’’اسد عمر صاحب ایک ہہت اچھے اور صاف ستھرے لیڈر ہیں۔ ہم ان کی بہت عزت کرتے ہیں اوراسی وجہ سے ان کی مدد کریں گے۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان افتخار درانی نے کہا، ’’یہ مولانا خلیل اور اسد عمر کا باہمی تعلق اور ذاتی فیصلہ ہے۔ یہ پی ٹی آئی کی پالیسی نہیں۔ ویسے بھی سماجی ترقی کے عمل میں سب کو شامل کیا جاتا ہے اور کسی طبقے کو ترقی کے عمل سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ عمران خان کی جانب سے طالبان کی مسلسل حمایت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’آج امریکا انہیں طالبان کے سماجی امتزاج کی بات کر رہا ہے۔ آج کہا جا رہا ہے کہ انتہاپسندوں بلکہ دہشت گردوں کو بھی مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کیا جانا چاہیے۔ آج ساری دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ طالبان سے مذاکرات ہی افغان مسئلے کا واحد حل ہے۔ لیکن عمران خان نے یہ بات 15 سال پہلے کی تھی۔ ان کا پرویز مشرف کے ساتھ بھی اصولی اختلاف یہی تھا کہ فاٹا میں فوج نہ بھیجی جائے۔ وقت نے عمران خان کے موقف کو درست ثابت کیا۔‘‘

Pakistan MMA Wahlkampf in Karachi
تصویر: DW/R. Saeed

افتخار درانی کے مطابق، ’’ہم پر مدرسہ حقانیہ کے حوالے سے بھی تنقید ہوتی ہے لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ یہ ایک مدرسہ نہیں بلکہ مدرسوں کا ایک نیٹ ورک ہے۔ اور ان مدرسوں میں پڑھنے والے ہزاروں بچے بھی ہمارے ہی بچے ہیں۔‘‘ انہوں نے مغربی ملکوں اور ان کے اداروں کے جانب سے پھیلائے جانے والے اس تاثر کی نفی کی کہ پاکستان میں لبرل ازم اور رجعت پرستی کی کوئی جنگ چل رہی ہے، ’’ہم ہزاروں برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں۔‘‘

اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے سکیورٹی امور کے ماہراور پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کا کہنا تھا، ’’سیاسی جماعتوں کی اپنی انتخابی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی ذمہ داری الیکشن کمشن اور وزارت داخلہ کی تھی کہ انہیں انتخابی عمل میں شامل ہونے سے روکا جاتا۔ اب جبکہ وہ اس عمل کا حصہ ہیں تو سیاسی جماعتوں پر الزام نہیں دھرا جا سکتا۔‘‘

پاکستان: پارلیمانی انتخابات میں مذہب کا سہارا

ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں انتہاپسند، رجعت پسند، فرقہ پرست اور دہشت گرد جماعتوں کی جانب سے انتخابی امیدواروں کا اعلان ایک بہت خوفناک رجحان ہے، ’’ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو دیکھنا چاہیے کہ ایک طرف تو وہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے جتن بھی کرتے ہیں۔‘‘

عامر رانا سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ معاشرے میں ان کی نظریاتی اثر پذیری کا خاتمہ کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئندہ سویلین حکومت کے لیے عالمی برادری کے سامنے اس پالیسی کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا اور ممکن ہے کہ سول ملٹری تعلقات ایک مرتبہ پھر بحران کا شکار ہو جائیں۔

Pakistan Wahlkampagne in Karaschi
تصویر: DW/R. Saeed

سینئر صحافی اور مذہبی انتہا پسندی کے سماجی و سیاسی رجحانات پر گہری نظر رکھنے والے ماہر عمرانیات ضیغم خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ مذہبی اور انتہا پسند جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کیے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جھنگ میں اتحاد بنائے اور اسی طرح 1990 کی دہائی میں پیپلز پارٹی نے سپاہ صحابہ کے لیڈر کو رکن صوبائی اسمبلی بنایا تھا۔ اسی طرح 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں اہل سنت والجماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد بنایا تھا۔‘‘

حالیہ صورت حال پر ضیغم خانب کہتے ہیں، ’’پی ٹی آئی کے لیے اس نوعیت کے اقدامات نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو طالبان خان کا لقب دیا گیا کیونکہ وہ ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے دیتے رہے ہیں، طالبان کا دفتر کھولنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور ان سے مذاکرات کرنے کی پرزور حمایت کرتے رہے ہیں۔ اب یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ عمران خان ایک طرف بریلوی درگاہوں پر سجدے کر رہے ہیں اور دوسری طرف دیوبندی تنظیموں کی جانب جھک رہے ہیں تاکہ توازن قائم رہے۔‘