1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی مقاصد کی تکمیل اور ’مذہب کا استعمال‘

عبدالستار، اسلام آباد
12 جنوری 2021

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر اور جے یو آئی ایف کے امیر مولانا فضل الرحمان کی طرف سے سیاسی جلسوں میں ’مذہب کے استعمال‘ پر ملک کے کئی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وہ اسے ایک ’خطرناک رجحان‘ قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3np2Z
Maulana Fazlur Rehman | Mitglied der pakistanischen Nationalversammlung
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

مولانا فضل الرحمان نے اتوار کے روز مالا کنڈ کے جلسے میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک کو ایک 'جہاد‘  قرار دیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے سیاسی مقاصد کے لیے ’مذہب کا کارڈ استعمال‘ کیا ہو بلکہ ماضی میں بھی انہوں نے کئی بار ایسا کیا ہے۔

'خطرناک رجحان‘

’ریلیجئس فنڈامینٹالزم ان ساؤتھ ایشیا‘ نامی کتاب کے مصنف اور دانشور فاروق طارق کا کہنا ہے، ''سیاست کے لیے مذہب کے استعمال نے ہمیشہ معاشرے کو نقصان پہنچایا ہے اور مولانا کی طرف سے اس طرح مذہب کا استعمال ہمیں مزید تقسیم کی طرف لے کر جائے گا۔ اس طرح کے استعمال سے صرف مذہبی بنیاد پرستوں کو فائدہ ہو گا اور وہ سیاست پر غالب ہو جائیں گے۔ لہذا سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے کیونکہ اس کا نقصان پورے معاشرے کو ہوتا ہے۔‘‘

عوامی ورکرز پارٹی کی مرکزی وویمن سیکریٹری عالیہ بخشل کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس استعمال پر خاموشی قابل افسوس ہے، ''سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال نے معاشرے میں انتہاپسندی کو بڑھایا ہے، جس سے نہ صرف قومی حقوق کی تحریکوں بلکہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور طبقات کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو بھی نقصان ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی پی پی مولانا کو کیوں روکے کی؟ پی پی پی نے تو خود سندھ میں تعلیم کو تباہ کر کے غریب بچوں کو مدرسوں میں جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج سندھ کے طول و عرض پر پی پی پی کی آشیرباد سے مدرسے کھل رہے ہیں، جس سے مولانا فضل الرحمان سمیت ساری مذہبی جماعتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں، جب کہ غریب عوام کی ایک بڑی تعداد اب اعلی تعلیم حاصل نہیں کر پا رہی ہے۔‘‘

Pakistan | pakistanische Politiker, die sich unter dem Bündnis von PDM in Lahore treffen
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے، ''میرے خیال میں مذہب اور سیاسی معاملات دو مختلف چیزیں ہیں۔ مذہب انسان کا ذاتی عقیدہ ہے۔ لہذا مذہب اور سیاست کی آمیزش نہیں ہونی چاہیے لیکن مولانا فضل الرحمان ایک عالم دین ہیں اور پی ڈی ایم کے صدر ہیں، تو انہیں مذہبی باتیں کرنے سے روکنا مشکل ہے۔‘‘

ان کا مثال دیتے ہوئے کہنا تھا کہ مذہب کا استعمال گاندھی جی نے بھی کیا، ''ان کا خیال تھا کہ مذہبی نعرے کی بدولت وہ ہندوستان کی دیہی آبادی کو اپنے ساتھ ملا لیں گے اور آزادی کی تحریک میں شامل کر لیں گے لیکن اس کا خطرناک نتیجہ نکلا اور گاندھی خود مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہوئے۔ جناح مذہب اور سیاست کی آمیزش کے نتائج کو سمجھتے تھے، اسی لیے انہوں نے ہمیشہ اس آمیزش کی مخالفت کی۔‘‘

’سب پی ٹی آئی کا پروپیگنڈہ ہے‘

خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے اے این پی کے رہنما زاہد خان مولانا فضل الرحمان پر مذہب کے استعمال کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا ایک زیرک سیاست دان ہیں اور انہوں نے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا، ''مذہب کا استعمال ان لوگوں نے کیا، جنہوں نے افغانستان میں جہاد کے نعرے لگائے، جنگ کے شعلے بھڑکائے اور مختلف لشکر بنائے۔ مذہب کا استعمال انہوں نے کیا جنہوں نے آئین میں باسٹھ تریسٹھ جیسی شیقیں شامل کیں اور نواز شریف کو اس کے تحت نا اہل قرار دیا۔ تو دراصل مذہب کا استعمال تو طاقتور حلقوں نے کیا۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمان پر مذہب استعمال کرنے کا الزام لگا رہی ہے، ''لیکن دراصل عمران خان اور ان کی حکومت مذہب کو استعمال کر رہی ہے۔ کیا ریاست مدینہ کی اصطلاح مذہبی نہیں ہے؟‘‘

’ساری پارٹیاں ایک جیسی ہیں‘

فاروق طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ساری سیاسی جماعتوں نے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، جو بہت تباہ کن ہے، ''کیا پی پی پی نے ستر کی دہائی میں مذہب کا استعمال نہیں کیا، کیا ن لیگ ایک سیکولر جماعت ہے؟ جو نون لیگ اور پی پی پی کو سیکولر حماعتیں سمجھتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ دراصل ہمیں یہ اصول طے کرنا چاہیے کہ مذہب کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہو گا اور اس کو سیاست سے دور رکھنا ہو گا۔‘‘